میں اور خدا (قسط نمبر 2)

(میں اور خدا ایک ایسا ناول ہے جس میں صرف کردار تصوراتی ہیں بلکہ واقعات اور حالات حقیقی دنیا سے ماخوذ ہیں، ایک ایسا ناول جو آپ کو حیرت کے سمندروں میں لے جاۓ گا، ان پوچھی پہلیاں سلجاۓ گا، جو ایک جھونپڑی سے لے کر محل تک کے سوچ کے مینار ہلاۓ گا۔عشقق، محبت، جنون، سکون،بغاوت سے ہوتے ہوئے ایک نئی دنیا میں لے جاۓ گا۔جو آپکو سوچنے پر نہیں بلکہ عمل کرنے پہ مجبور کرے گا، اس میں آپ تلخ باتیں ضرور سنے گے، لیکن ناول کے اختتام پر پوری بات واضح ہوجاۓ گی، تنقید آپکا حق ہے لیکن فتویٰ نہیں حتی کے میں اپنی بات پوری واضح کردو، ذیادہ سے زیادہ شیھر کریں لیکن میرا محنت پہ ڈاکہ ڈال کر نہیں بلکہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے۔)

Published from Blogger Prime Android Appمیں اور خدا 
مصنف: تیمور اجمل
قسط نمبر 2:

(منظر 1)

اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ہسپتال میں پایا، پاس کھڑی نرس کو وہ سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا نرس خود ہی بول اٹھی: آپ کو ہلکی سی چوٹ لگی ہے، جس کی وجہ سے آپ بے ہوش ہوگئے تھے، اس سے پہلے کے نرس کچھ بولتی وہ خود ہی بول اٹھا: اور وہ جو دھماکہ ہوا تھا؟ اور باقی مسافروں کا کیا ہوا؟ 
نرس ہلکا سا مسکرائی اور بولی: جسے رب رکھے اسے کون چکھے؟۔ 
" وہ  دھماکہ کی آواز جو آپ نے سنی تھی، وہ در حقیقت میں جس گاڑی میں آپ سوار تھے اسے کے ٹائر کی تھی جو کے اچانک پٹ گیا تھا۔"
اور اگ اور باقی مسافر؟
" اگر میں وہاں ہوتی تو آپ کے بے ہوش ہونے کے بعد آپ کی ویڈیو بنا لیتی، تاکہ آپ کے سارے سوالوں کے جواب دے سکتی لیکن افسوس میں وہاں موجود نہیں تھی اور باقی مسافر خدا کی مدد سے سلامت ہیں" 
"خدا " !!!! یہ لفظ سنتے ہی وہ پھر چونک گیا!
'یعنی خدا نے ان کی سن لی، یعنی خدا ہے، اچھائی غالب آگئی، گناہوں کی سزا نہیں ملی، لیکن خدا کو ثابت کیسے کروں؟
کچھ دیر بولنے کے بعد وہ دل میں ہی بول اٹھا، کہ اگر خدا ہے، تو اسنے اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے وہ عقل بھی پیدا کی ہوگی، 
لیکن آخر میں وہ شخص ڈھونڈو کہاں؟ جو مجھ پہ لعن تعن کیے بغیر مجھے میرے جواب دے سکے؟
اے خدا! مجھے روشنی دیکھا نہ چاھتے ہوۓ بھی وہ خدا سے فریاد کر ہی بیٹھا تھا۔
ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد وہ اب خدا کی تلاش میں نکل پڑا تھا، وہ نہیں جانتا تھا کے اسے کہا ڈھونڈے، یہ سوالات اس کے لیے نئے نہیں تھے،وہ ہر مذھب کے پیشوا سے یہ سوال پوچھ چکا تھا، لیکن بدلے میں اسے گمراھی سے ڈرایا گیا، اسے مذھب کے حوالہ جات دیے گئے لیکن اس کی طلب ہمیشہ سے عقلی تھی۔
تو آخر کار اس نے خود سے مخاطب ہونے کا سوچا، لیکن وہ خود سے کیا جواب حاصل کرپاۓ گا؟ اگر اسکے پاس جواب موجود ہیں ؟ تو سوال پیدا ہی کیوں ہوۓ؟ 
وہ اب مکمل بے بس ہوچکا تھا، اور خود کو فنا کرنے کے ارادے سے اس نے میز پہ سے چاقو اٹھایا! 
 اور خود کو فنا کرنے کے ارادے سے اس نے میز پہ سے چاقو اٹھایا.
  اچانک ایک خیال کے آتے ہی وہ روک گیا۔
  یہ چاقو کس نے بنایا؟ یہ بغیر مالک کے تو وجود میں نہیں آیا.
  اب وہ ادھر ادھر نظرے گما رہا تھا اسے ہر چیز میں کسی نا کسی خالق کا وجود نظر آرہا تھا، کئی خالق پوشیدہ تھا تو  کئی واضح۔
  "واہ خدا واہ شاید تو جانتا تھا کہ انسان تیرے وجود پہ شق کرے گا، تبھی تونے اسے بھی تخلیق کرنے کی طاقت دی، تونے انسان کے اندر ہی اس کے سوالوں کے جواب رکھے۔
  ہاں تو ہے لیکن تو پوشیدہ ہے، تجھے دیکھا نہیں جاسکتا،ویسے ہی جیسے میں اس چاقو کے مالک کو نہیں دیکھ سکتا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کے اگر میں اس کے مالک کو نہیں دیکھ سکتا تو چاقو کا کوئی مالک نہیں، چاقو کا وجود اس بات کی گواہی ہے کے اسے بنانے والا موجود ہے۔
  خدا تو حقیقت ہے. اور میں تجھے فلسفے سے ثابت کرنا چاھتا تھا جبکہ فلسفہ تو ایک سوال ہے جو ہر جواب پہ پھر سے کھڑا ہوجاتا ہے ، فلسفے کی کوئی منزل نہیں، یہ انسان کو پاگل کرتا ہے، اب انسان چاھے تو جواب یعنی حقیقت چنے، یا پھر سوال فلسفہ چنے، حقیقت نہیں بدلتی، فلسفہ حقیقت کو نہیں بدل سکتا، کیوں کہ سوال بدلے جاسکتے ہیں کیوں کے سوال میں صحیح غلط کی تمیز نہیں،  لیکن جواب صحیح ہوں تو مطمئن ہوتا ہے اور اگر غلط ہوں تو صحیح ہوسکتا ہے،  خدا کے حوالے سے صحیح جواب وہی ہے جس کی گواہی انسان کی  تخلیق  کی ہوئی چیز یا وجود  نہ دے بلکہ انسان جنہے تخلیق نہ کرسکے وہ دیں ، اور وہ گواہی دے رہے ہیں کہ ان کا خالق موجود ہے، حقیقت موجود ہے، حقیقت تو خدا  ہے، ویسے ہی جیسے چاقو کا وجود حقیقت ہے، چاقو کے خالق کا وجود حقیقت ہے، میں اس چاقو کے خالق کو دیکھ پاؤ یا نہیں، لیکن میں انکار نہیں کرسکتا، اس دنیا میں ہر چیز خود بخود وجود میں نہیں آئی،نا یہ اونچی عمارتیں، نا یہ ہاتھ میں پکڑا ہوا موبائل، نا یہ انٹرنیٹ کے سگنل، حالانکہ میں ان سگنلوں کو دیکھ نہیں سکتا، لیکن میں ان کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں، یہ چیزیں جن میں سے میں کچھ کے وجود کو دیکھ سکتا ہوں، اور کچھ کے وجود کو نہیں، خدا جب میں اندیکھے سگنل کہ وجود پہ یقین رکھ سکتا ہوں۔ تو مجھے تیرے وجود پہ بھی یقین ہے۔
  لیکن خدا تجھے کس نے بنایا ہے؟کیا تو ایک ہے یا تیرا وجود ایک سے زیادہ ہے؟ کیا تیرا کوئی بیٹا ہے؟

(منظر 2) 

بھائی جان! 
وہ اچانک اپنی سوچ کی وادیوں سے باہر آگیا اور جواب دیا،
 "جی"
  کون سے سوچ پریشان کر رہی ہے؟ کہ میں ایماندار کیسے ہوں؟ یا پھر میرا حلیہ اور حرکت میں فرق آپ کو پریشان کررہا ہے؟
   اسنے جواب دیا برا مت مانیے گا
    ' لیکن دونوں'!۔
     وہ خراب حلیہ والا شخص ہلکا سا مسکرایا اور جواب دیا؛ سنو نوجوان لوگ چیزوں کو یا حرکات کو دو چیزوں پہ ناپتے ہیں، اپنے تجربات پر یا پھر اوروں سے سنے ہوئے تجربات (قصے /کہانیاں) پر، درحقیقت وہ غلطی کر رہے ہوتے ہیں، تجربات ماضی کے ہوتے ہیں اور حرکات حال کی، تو اس طرح جیسا ماضی ہوتا ہے حال کو مجبوراً وہی بننا پڑتا ہے اور جب حال ماضی کے وجود پہ قائم ہوتا ہے تو  وہی حال ہمارا مستقبل بنتا ہے یعنی ماضی نہ صرف حال پہ قابض ہوتا ہے بلکہ وہ مستقبل کو وجود میں آنے ہی نہیں دیتا، کیوں کے اس کی بنیاد ماضی بنا دی جاتی ہے، ہمارا حال، ماضی کی زنجیروں میں ہمیشہ جکڑا رہتا ہے، اس لئے ہمارا حال کبھی بدلتا نہیں اور جب ہمارا حال نہیں بدلتا تو ہمارہ مستقبل کبھی جنم ہی نہیں لیتا ، میں یہ نہیں کہتا کے تجربات بیکار ہے، بلکہ یہ بہت کام کی چیز ہیں، لیکن صرف وبھی جب انسان علم اور شعور سے بھرپور ہو، اور ہر زاویے میں سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہوں, وہ تجربات کی بناھ پر ہوشیاری ضرور برتے، لیکن فیصلے نہ لے، بلکہ فیصلوں کو ماضی کی قید سے آزاد ہونا چاہیے، کیوں کہ ہر نئی حرکت (Action) پرانی حرکت سے مختلف ہوتی ہے، البتہ ان کی شکل صورت ایک ہوتی ہوگی، لیکن ان کے وجود میں آنے کی وجہ یا جان بوجھ کے کرنے کے پیچھے ہر بار  نیت الگ ہوتی ہے۔جس دن ہم نے چیزوں یا حرکات کو صحیح یا غلط کے زاویے پہ ناپنا شروع کردیا، اس دن سوال شخصیات پہ نہیں بلکہ حرکات پہ اٹھے گیں، اس سے امن ہوگا اور محبت بھی بڑھے گی، لیکن بیٹا یاد رکھنا، جن حرکات کی موجودگی تم میں زیادہ ہوگی، وہی تمھاری شخصیت بنے گی، اور یہ فیصلہ معاشرہ کرے گا، کہ تمھاری شخصیت کیا ہے؟ اب یہی سے اندازہ لگالو کی مجھ میں زیادہ حرکات/آثار بھیکاری اور چوروں والے ملے۔ اس لئے تمنے میری شخصیت کا جلدی اندازہ لگالیا، تمھارے دماغ میں موجود تجربے نے تم سے یہ فیصلہ کروایا، اب جب تم میری شخصیت کا اندازہ کر چکے تھے، اچانک مینے اپنی شخصیت کے خلاف حرکت کردی ، جس سے تمھارے دماغ نے تمھارے تجربات پر سوال کھڑے کردیے، تمھارے دماغ میں ماضی کے جو تجربات محفوظ ہے ان سے تھوڑی دیر کے لیے ہٹ جاؤ، یا ماضی کو بھول جاؤ، تمھارا دماغ فوری طور پہ اس نئے تجربے کو قبول کرلے گا، کے ایک چور اور بکھاری کے حلیے میں دکھنے والا انسان ایماندار بھی ہوسکتا ہے، جانتے ہو ایسا کیوں ہوگا؟ کیونکہ تم اپنے دماغ میں حکومت کرنے والے ماضی کے تجربات کو مات دے چکے ہوگے، ایک وقت میں ایک زمین پر دو حکومتیں قائم نہیں رھتی ہمیشہ جنگ و جدل جاری رہتی ہے، ایک منظم نظام قائم نہیں ہو پاتا۔ اگر تم منظم نظام قائم رکھنا چاھتے ہوں تو تمھیں ایک ہی حکومت قائم کرنی ہوگی یا ماضی کی یا حال کی، ماضی کی حکومت تھوڑی فسادی ہوتی ہے، لیکن بیٹا اس کے بغیر تم حال کی حکومت قائم تو کرلو گے لیکن وہ کمزور ہوگی، وہ بار بار ٹوٹے گی۔
      تو جناب میں کیا کروں؟  آپ مجھے ماضی کی حکومت  قائم رکھنے سے منع رہے ہیں، اور حال کی حکومت سے بھی تنبیہ کر رہے ہیں۔ 
       بیٹا تمھیں درمیانی راستہ نکال نا ہوگا، تمھے ماضی کی حکومت کے اوپر حال کی حکومت قائم کرنی ہوگی۔
        تو جناب اس سے کیا جنگ و جدل نہیں ہوگا؟
         بیٹا تم سمجھے نہیں تمھیں ماضی کی حکومت کو مخسوس (Limited) اختیار دینے ہونگے، اور ایک قانون بنانا ہوگا، کہ فیصلہ حال کی حکومت کرے گی، لیکن اس میں ماضی کے مشوروں کو بھی مدنظر رکھا جائے گا، اس سے ماضی کی عزت نفس بھی بچ جائے گی اور تم ایک توازن رکھ پاؤ گے۔  اور یہی توازن جو کہ تم ماضی اور حال کی حکومت میں رکھو گے جنہیں تم ایک زمین جوکہ تمھارا دماغ ہوگا، وہاں قائم کرچکے ہوگے، تو پھر ترقی آۓ گی، جوکہ تمھارا مستقبل ہوگا، 
          دیکھو بیٹا مستقبل ایک کاروباری بندے کی طرح ہوتا ہے، یہ وہی آتا ہے جہاں امن ہوتا ہے۔
          "وہ اب دل میں سوچ چکہ تھا کہ یہ بندہ کچھ دانشور معلوم ہوتا ہے، یہ میرے سوالوں کے جواب دے سکتا ہے"
          جناب! وہ خراب حلیے والے شخص سے مخاطب ہوا۔ 
          جی بیٹا! 
          جناب آپ کا نام کیا ہے؟
                                       
 (منظر :3)
 
 جب اس نے آنکھیں کھولی تو خود کو ایک بوسیدہ سے کمرے میں پایا، جب اسے درد کی ہلکی سی ٹھیس محسوس ہوئی تو وہ درد سے ہلکا سا چلایا۔
  اچانک ایک ظعیف لیکن پر اعتماد زنانہ آواز گونجی۔
  " بیٹا آرام سے خطرے کی بات نہیں لیکن زخم اتنے مضبوط نہیں ہوۓ  جو تم ابھی حرکت شروع کردو، خون بہت مشکل سے روکا ہے مینے، اگر دوبارہ شروع ہوگیا تو میں اسے روک نہیں پاؤ گی۔
  نوجوان مخاطب ہوا آپ کون ہیں اور آپکا نام کیا ہے؟ 
  بیٹا میں کون ہوں اس کا جواب تمھیں بعد میں ملے گا البتہ میرا نام سلیمہ ہے۔
  اور آپکا؟
  سلیمہ خاتون میرا نام عمار ہے۔ 
  سلیمہ خاتون میں یہاں کیسے پہنچا؟ اور آپ یہاں اکیلی کیوں رہتی ہیں ان پہاڑوں کے بیچ و بیچ؟ 
  بیٹا عمار: میں معمول کے مطابق بکریاں چرا رہی تھی، کے وہاں مجھے خون میں لت پت تم ملے، مینے تمھاری مدد کرنے کا سوچا اور میں تمھیں یہاں لے آئی، 
  لیکن محترمہ آپ نے میری مرحم پٹی کیسے کری؟
  ہاہاہاہاہاہا بیٹا ان گمنام وادیوں میں گمنام ہونے سے پہلے میں ایک طبیبہ تھی، 
  گولیاں صرف تمھیں چوھ (touch) کر گزری تھی اس لیے مجھے تمھارا علاج کرنے میں زیادہ  مشکل پیش نہیں آئی، 
  لیکن محترمہ آپ یہاں کیسے؟ 
  مجھے چھوڑو عمار تم یہاں کیسے؟ 
  عمار: میں تو خدا کی تلاش میں نکلا تھا،کسی نے بتایا تھا کے مخلوق سے محبت خدا تک پہنچتاتی ہے،لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ مرد کی محبت یا پھر عورت کی محبت خدا تک پہنچاتی یے۔
  سلیمہ: اچھا تو پھر تمھاری اصل تلاش خدا ہے۔
  "مجھے بھی کسے نے یہی راستہ بتایا تھا،میں اس راستے پہ چلی  میں نے مرد سے محبت کری، اس نے میری محبت کا فائدہ اٹھایا، نہ میں گھر واپس جا سکتی تھی، نہ معاشرہ میں رہ سکتی تھی، تو میں نے اپنے سفر کو جاری رکھنے کا سوچا۔اور یہاں آگئی۔
  عمار: تو میں نے اپنے سفر کو جاری رکھنے کا سوچا۔اور یہاں آگئی۔
  عمار : تو کیا آپ کو خدا مل گیا؟
  سلیمہ: ہاں! لیکن ابھی آگے راستہ بہت طویل ہے۔
  'اب ہم دونوں ایک ہی منزل کے مسافر ہیں، پہلے میں تمھے اپنے مقام تک پہنچاؤ گی، پھر باقی کا سفر ہم اکھٹا کریں گیں۔
  عمار: لیکن میری اس محبت کا کیا ہوگا جو میں نے خدا کی خاطر اس کی مخلوق سے کری تھی؟ کیا مجھے سب چھوڑنا ہوگا؟ 
  سلیمہ: تمھے صبر رکھنا ہوگا، اور حوصلہ بھی تمھارے ہر سوال کا جواب تمھے مل جائے گا۔
                 
(منظر 4)

وہ اپنی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد اپنے کیمپ میں واپس آگیا تھا، جہاں اس کے اور بھی ساتھی موجود تھے، اس نے یہ سوالات ان سے پوچھنے کا سوچ لیا، لیکن جیسے ہی وہ ساتھیوں سے مخاطب ہوا، تو سب نے اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اسے مبارک باد دینے شروع کردی،
وہ تھوڑا حیران ہوا، لیکن اس کے ساتھی نے اسے ایک خط ہاتھ میں تما دیا، جو کی اعلیٰ حکام سے آیا تھا، وہ سب سے مخاطب ہوا یہ کیا ہے؟
اس کے ایک ساتھی نے کہا یاسر میاں مبارک ہوں لگتا ہے اعزازی عہدہ مل گیا ہے، بھائی ہم نے تو کھول کے نہیں دیکھا تم خود ہی کھول لوں۔ 
یاسر نے خط کھولا تو اسے ایک جگہ کا پتہ اور ایک مقررہ تاریخ ملی جس پہ اسے وہاں پہنچنا تھا۔
ساتھیوں نے کہا کیا لکھا ہے؟
یاسر نے سب کچھ بتا دیا۔
ایک ساتھی نے کہا لگتا ہے تمھارا ٹرانسفر ہوگیا ہے، کسی نے کچھ تو کسی نے کچھ کہا.
اچانک ایک ساتھی بول اٹھا، آج سمجھ آئی کہ ہمیں صرف حکم ماننے کا کیوں کہا جاتا ہے، اور اپنی سوچ پے کوئی بڑا فیصلہ لینے سے منع کیوں کیا جاتا ہے۔ دیکھا تم نے ہم سب کی سوچ ایک جگہ متفق نہیں ہوتی، اس لیے ہمیں کسی ایک کی سوچ پہ چلنا پڑتا ہے، تاکہ ہم طاقتور بن سکے، اور ہمیں اسی سوچ کو چوننا چاھیے کہ جس سوچ میں نظریہ ہو۔ 
جاؤ بیٹا یاسر، جہاں بھی رہو خوش رہوں،
یاسر کا دل کرا کہ وہ اس شخص سے اپنے سوالات پوچھے لیکن اس کے اندر کے ڈر نے اسے روک لیا۔
اور وہ یہی سوالات سینے میں دبائے اپنے سفر پہ گامزن ہوگیا۔

(منظر 5)

دنیا میں صرف دو ہی طاقتوں کا وجود ہے ایک صحیح اور دوسری غلط، جب تک ان میں سے کسی ایک کا وجود قائم نہیں ہوجاتا یہ دنیا ایک جنگ کا میدان بنے رہے گی، اگر صحیح طاقت غالب آجاتی ہے، تو غلط طاقت کے لیے یہ دنیا جہنم بن جاتی ہے اور غلط طاقت غالب آجاتی ہے تو یہ دنیا صحیح طاقت کے لیے جہنم بن جاتی ہے۔ یعنی اس دنیا میں جنت کا وجود ہے ہی نہیں، کیونکہ ہر انسان کا صحیح اور غلط کو ناپنے کا زاویہ الگ ہے۔ اس لیے خدا نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا کے کیا صحیح ہے اور کیا غلط, تاکہ ہم اس عقلی کھیل میں الجھے نہ۔
وہ اب سردار کے کمرے میں موجود تھا، سردار اس کا خون گرما رہا تھا کہ بیٹا بدلہ تمھارہ حق ہے، خالد پیچھے مت ہٹنا، 
تھوڑی دیر بعد کچھ بندے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور خالد کو باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ 
ان بندوں کے جانے کے بعد خالد کو سردار کمرے میں بلاتا ہے اور کہتا ہے دیکھو خالد میں نہیں جانتا یہ ماجرہ کب سے شروع ہوا یہ بندے مجھ سے پہلے بھی یہاں آتے تھے اور ہمارے قبیلے کے افراد کو لے جاتے تھے، ہم سے یہی کہا جاتا تھا کہ یہ آپکے پیاروں کا بدلہ لینے جارۓ ہیں ، مجھے نہیں معلوم ہمارے پیارے کیوں مر رۓ ہیں، ان کا جرم کیا ہے، لیکن ہر بار جب ان کی لاش واپس آتی ہے تو دل بدلے کی آگ میں جلتا ہے، کیوں کہ وہ لاشیں بھی اپنے پیاروں کے بدلے کے لیے جاتی ہیں، کل وہ تمھیں بھی لے جاۓ گیں، پھر تم بھی اپنے پیاروں کا بدلہ لو گے، لیکن خالد تم پتہ کرنا آخر ریاست ہماری دشمن کیوں ہے؟ کیوں وہ ہماری لاشوں کو غدار کہتے ہیں؟ حالانکہ وہ ہمارے ہم مذہب ہیں اور ہمارا مذھب حق کے لیے لڑنا سیکھاتا ہے.لیکن ہمارے حق کا اصل چور کون ہے؟ اور ہمارا حق اصل میں ہے کیا؟ میں چاھتا ہوں تم عقل کی کسوٹی پہ ناپو ہر چیز کو۔
خالد: جی ضرور سردار۔

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

Yo y Dios (Episodio 1)

Yo y Dios (Episodio 12)