میں اور خدا (قسط نمبر 4)

(میں اور خدا ایک ایسا ناول ہے جس میں صرف کردار تصوراتی ہیں بلکہ واقعات اور حالات حقیقی دنیا سے ماخوذ ہیں، ایک ایسا ناول جو آپ کو حیرت کے سمندروں میں لے جاۓ گا، ان پوچھی پہلیاں سلجاۓ گا، جو ایک جھونپڑی سے لے کر محل تک کے سوچ کے مینار ہلاۓ گا۔عشقق، محبت، جنون، سکون،بغاوت سے ہوتے ہوئے ایک نئی دنیا میں لے جاۓ گا۔جو آپکو سوچنے پر نہیں بلکہ عمل کرنے پہ مجبور کرے گا، اس میں آپ تلخ باتیں ضرور سنے گے، لیکن ناول کے اختتام پر پوری بات واضح ہوجاۓ گی، تنقید آپکا حق ہے لیکن فتویٰ نہیں حتی کے میں اپنی بات پوری واضح کردو، ذیادہ سے زیادہ شیھر کریں لیکن میرا محنت پہ ڈاکہ ڈال کر نہیں بلکہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے۔)

Published from Blogger Prime Android Appمیں اور خدا 
مصنف: تیمور اجمل
قسط نمبر :4

(منظر 1)

قصہ مختصر ہر چیز کا ایجاد کرنے والا خدا ہے، یہ وہ جواب ہے جس پہ ہم خود کو مطمئن کر لیتے ہیں، لیکن کچھ لوگ کچھ عجیب سوچ کے ہوتے ہیں، وہ اس سے آگے سوال کرلیتے ہیں خود سے، ٹھیک ہے سوال اچھے ہیں لیکن ہر سوال کا جواب ہوتا ہے، لیکن لازمی نہیں کے وہ جواب اسی دور میں ملے، جواب تو فوراً مل جاتا ہے لیکن وہ دلیل یا عمل سے خالی ہوتا ہے، ایسا جواب اہل عقل کے ہاں نا قابلِ قبول ہوتا ہے، آج سے دس صدی پیچھے چلتے ہیں، آپ مجھ سے سوال پوچھتے ہیں، کیا انسان چاند پہ قدم رکھ سکتا ہے؟ میں کہتا ہوں ہاں! رکھ سکتا ہے, آپ پوچھتے ہیں کیسے ؟ میں کہتا ہوں بس یہ نہیں معلوم لیکن انسان چاند پہ قدم رکھ سکتا ہے۔ آپ مجھے پاگل یا مجنوں سمجھ کے میری بات کو یا میرے جواب کو نظر انداز کر دینگے، 
اب ذرا بتائیں کیا میرا دسویں صدی میں دیا ہوا جواب غلط تھا؟ نہیں بس اسے وب سچ اس لئے نہیں مانا گیا کیونکہ وب اس میں دلیل نہیں تھی،
آج میرے اسے پرانے جواب کو سچ مانا جارہا ہے کیونکہ اب اس میں دلیل ہے۔
تو یہاں یہ بات سمجھنی بہت ضروری ہے، کہ انسان کا دماغ صرف چند فیصد ہی کام کرتا ہے، تو اس حساب سے انسانی عقل محدود ہوئی، اور کوئی محدود چیز لامحدود چیز پہ سوال کیسے کھڑے کرسکتی ہیں؟ لامحدود کون ہے؟ یہ کائنات جو کہ سائینس کہتی ہے؟ اور اس لامحدود کائنات کا خالق کون ہے؟ خدا، اب آپ خود اندازہ لگاۓ کہ آپ کس کس چیز پہ سوال کھڑے کرنے جارہے ہیں؟ 
چلے آپ کو زیادہ الجھاتے نہیں واپسی خدا کی طرف لے آتے ہیں۔
اب سکندر اپنے حاصل کئے ہوئے جوابات پہ غور کرنے لگا، جو اس نے عقل سے حاصل کئے تھے، اب وہ اپنے جوابات کو انگلیوں پہ گن رہا تھا۔

1. خدا ہے۔
2. خدا ایک ہے
3. نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا۔

اب جو سوال اس کے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ کیا خدا کو دیکھا جاسکتا ہے؟

 (منظر 2)
 
 جب ایک فوجی کسی دشمن کو مارتا ہے تو اسے انعام دیا جاتا ہے، لیکن جب ایک دشمن کسی فوجی کو مارتا ہے اور اگر وہ پکڑا جائے تو اسے سزا ملتی ہے، دیکھوں دونوں ایک دوسرے کو مار رہے ہیں لیکن ایک کے مارنے پہ اسے انعام ملتا ہے اور دوسرے کے مارنے پہ اسے سزا، ایک کا عمل قانونی ہے اور دوسرے کا عمل غیر قانونی۔حالانکہ دونوں اپنے نظریے کے مطابق صحیح ہونگے، لیکن اس طرح اگر ہر کوئی اپنے نظریے پہ لڑنا شروع کردے تو زمین پہ وجود انسانی ختم ہو جائے گا۔ تو اس فساد کو روکنے کے لیے لازم ہے کہ اس طاقت کے نظریے پہ چلا جائے جس نے ہمیں بنایا ہے۔ طاقت وہ ہے جو کبھی کمزور نہ ہوں، جو کمزور ہوجاۓ وہ طاقت نہیں ۔ اس لیے طاقت کے یہی تعریف ہے کہ جو ہمیشہ باقی رہے، وہی اصل طاقت ہے، اور باقی رہنے والی ذات خدا کی ہے تو خدا ہی اصل طاقت ہے اور جہاں تک بات ہے انسانی سوچ کی تو وہ طاقتور ضرور ہے، کچھ وقت کے لیے وہ اپنی حکمرانی بھی لے آتی ہے۔لیکن وہ پھر بھی خدا کے ہی طابع ہے، کیوں کہ عقل بدلتی ہے حالات کی بنیاد پھر۔ لیکن حالات کبھی بھی عقل کی بنیاد پر نہیں بدلتے، کیونکہ اس دنیا میں ان گنتھ انسان ہے اور ان گنتھ عقل بھی، ہر عقل کا نظریہ الگ ہے، حالات سب کو ایک طرح سے ہی دکھتے ہیں، حالات کو عقل کی مدد سے نہیں بدلہ جاسکتا، حالات کو صرف خدا ہی بدل سکتا ہے، کیونکہ اس کی طاقت صرف اس کے پاس ہے، جب طاقت ہی ایک وجود کے پاس ہے تو اختلاف نہیں اٹھ سکتا، فیصلہ اٹل ہوتا ہے، لیکن جب طاقت الگ الگ ہوں، تو مظبوط اور اٹل فیصلہ وجود میں نہیں آتا، ہمیشہ اختلاف رہتا ہے اور اختلاف کی صورت میں نظام نہیں چلتا۔ اور ہم اپنے آنکھوں سے اس کائنات کے ہر ذرے کو منظم نظام سے چلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
 عاقل: امیں کرتا ہوں میں تمھیں جواب دے پایا ہونگا۔ ہاں میرا جواب جامع نہیں ہے اور نہ ہی مختصر لیکن واضع ہے، تم اس پے غور کرنا، تاکہ جب تم جواب تک پہنچوں تو نئے اٹھنے والے سوالوں کو انکے پیدائشی دور میں ہی مٹا سکو۔ دیکھو بیٹا سوالات کی زیادہ دیر پرورش مت کرو۔ جتنی جلدی ہو جواب حاث کرنے کی کوشش کرو۔ 
 سعد: جی ضرور
 اب ٹرین اپنے آخری اسٹیٹس پہ پہنچ چکی تھی عاقل اور سعد ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کے بات اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں۔ سعد اب بہت خوش تھا کیونکہ وہ اپنے سوالات کا کسی حد تک جواب پاچکا تھا۔ لیکن کیا یہی منزل تھی اس کے سوالات کی؟ 
 نہیں کیوں کہ ایک لامحدود ذات پہ اٹھنے والے سوالات محدود کیسے ہوسکتے ہیں۔ کہی نہ کہی وہ ذات اپنے بندے سے مخاطب سے ہوئی ہوگی۔ 
 لیکن اس دنیا میں ہر مذھب یہی کہتا ہے کہ خدا کے سچے احکام اسی کے پاس ہیں۔ 
 آخر خدا تو تلاش کرے تو کہا؟
 لیکن نہیں شاید خدا کو تلاش کیا جاسکتا ہے، یہ بات دماغ میں آتے ہی اس نے دنیا کہ چند مشہور مذاہب میں سے خدا تو تلاش کرنے کی کوشش شروع کردی۔ 
 وہ اب ایک نئے سفر پہ گامزن ہوچکا تھا۔ اس سفر میں اسے اب ایک رہبر کی ضرورت تھی۔ 
 
(منظر 3)

عمار: میں سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ آپ مجھے جلدی کرنے سے منع کر رہی ہیں اور دیر کرنے سے بھی، حالانکہ دیر تو اچھی ہوتی ہے اور جلدی بھی کیونکہ زندگی کا بھروسہ نہیں۔
سلیمہ : اگر دیر کرو گے تو خدا کو تلاش کیے بغیر مرجاؤ گا اور اگر جلدی کرو گے تو شیطان کے ہتھے چڑھ جاؤ گے۔
چلو اب رات ہورہی ہے جاؤ جاکے آرام کرو صبح پھر سے سفر پہ نکلنا ہے۔
عمار اب اپنے جھونپڑی میں چلا گیا جو لکڑیوں سے بنی ہوئی تھی وہ مسلسل سلیمہ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ کون ہے یہ عورت؟ یہاں اکیلے کیسے رہتی ہوگی؟ کیا کہانی ہوگی اس کی؟ کون تھا وہ مرد جس نے اس جیسی نیک عورت کی محبت کا فائیدہ اٹھایا۔ لیکن اتنے حکمت ہونے کے باوجود آخر یہ عورت دھوکہ کیسے کھا گئی، عمار کے دماغ میں جیسے سوالوں کا سیلاب آگیا تھا ۔ لیکن اس نے اس خیال کے ساتھ کہ صبح سب سے پہلے وہ سلیمہ سے اس کے بارے میں سوال پوچھے گا خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ 
اگلی صبح سلیمہ عمار کو لے کے ایک نئے سفر پہ گامزن ہوگئی۔
سلیمہ: عمار تمھیں بھوک لگے ہوگی تو ہم پہلے شکار کرتے ہیں پھر میں تمھیں آج کا سبق دو گی۔

عمار: جی ! میرے کچھ سوالات ہیں آپ کی ذات کے بارے میں کیا پوچھ سکتا ہوں؟ 

سلیمہ: ہاہاہاہا! عمار تم خود کو الجھا دو گے تم پہلے اس سفر کی منزل پالو، تم پہلے یہ دنیا گوم لو پھر نئی دنیا میں داخل ہونا، اگر ایک وقت میں دو دنیا میں جاؤ گے تو الجھ جاؤ گے اور منزل بھی نہیں ملے گی۔

عمار: لیکن سوال ایک دنیا کیسے ہوسکتے ہے؟ 

سلیمہ: سوال ایک دنیا کا دروازہ ہوتا ہے اور جواب پوری دنیا، جب تک تم جوب سے محروم ہو، وب تک تم دروازے سے باہر ہوں، اور جب تمھیں جواب مل جائے گا تو اس کا مطلب ہے تم دروازے کے اندر آچکے ہو۔ اور انسان کی یہ فطرت ہے کے وہ جب بھی نہیں دنیا میں داخل ہوتا ہے تو وہ اس کے ذرے ذرے کو دیکھنا چاھتا ہے۔ اور یہاں ہی وہ تجسس کی بھول بھلیوں میں پھنستا ہے۔ تو پار نکل گیا وہ دانشورو کہلاتا ہے اور جو پھنستا رہا یہ زمانہ اسے پاگل بلاتا ہے۔
میں جانتی ہوں تمھارے میرے بارے میں کیا سوالات ہے میں تمھیں جواب دو گی لیکن تمھیں دروازے سے اندر نہیں آنے دونگی بلکے میں خود باہر آکے تمھیں جواب دونگی۔

عمار: کیا ایسا ممکن ہے؟

سلیمہ: ہاں ایسا ممکن ہے۔ اب مزید سوال مت پوچھنا، اب میں تمھیں جواب عملاً دونگی, کچھ زبان سے حاصل کئے ہوئے جوب اطمینان بخش نہیں ہوتے۔

(منظر 4) 

اب اس کی آنکھ کھلی تو اس بار اس نے خود کو ایک بند کمرے میں پایا، وہ مکمل طور پہ رسیوں میں جکڑا ہوا تھا، کمرے میں نیم روشنی تھی جو ایک کھڑکی سے آرہی تھی۔ اچانک کمرے میں ہلکی ہلکی گیس پھیلنے لگی اور اس کے ساتھ ہی کمرے میں لگے ایک اسپیکر سے آواز آئی،
جوان تمھارے پاس صرف 10 منٹ ہیں اپنی جان بچانے کے لیے، تمھارے ہاتھ میں جو رسییا بندھی ہیں ان پہ زہر لگا ہے اگر تم نے ہاتھوں سے زیادہ مزاحمت کی اور خون نکلا تو اور اگر تمھارے خون میں یہ ذہر لگا تو تم صرف 3 منٹ میں مرجاؤ گیں، اور اگر ویسے نہ مرے تو 10 منٹ میں زہریلی گیس تمھیں مار دی گی، اور اگر تم ہر جگہ سے کامیاب ہوگئے تو کھڑکی تک نہیں پہنچ پاؤ گے۔ اور اگر کھڑکی میں لپٹے زہریلی سانپ تمھیں زندہ نہیں نکلنے دیں گیں۔ لیکن اگر تم چاؤ تو بچ سکتے ہوں۔ لیکن راستہ تم نے خود ہی تلاش کرنا ہے۔ 

(منظر 5) 

وہ اس کمرے کی رنگینیوں میں اتنا گم ہوچکا تھا کہ اپنے کیے ہوئے سوالات اور سردار کا سمجھایا ہوا مقصد سب اسے بھول چکا تھا۔ ہاۓ وہ مقصد کتنا کمزور ہوتا ہے جو مال یا مشکل دیکھ کر دماغ سے ہی نکل جائے۔ درحقیقت وہ مقصد ہوتا ہی نہیں ہے۔ صرف وقتی طور پہ جنون کی ایک کیفیت ہوتی ہے۔ جسے انسان غصے میں آکے مقصد کا نام دے دیتا ہے۔ اصل میں مقصد تو وہ ہوتا ہے کہ چاھے جنت میں ہویا جہنم میں وہ اسے یاد رہتا ہے، خوشی ہو یا غم، عروج ہو یا زوال وہ اسے بھولتا نہیں،بلکہ اس کا ہر اٹھتا ہوا قدم چاھے وہ کسے بھی سمت ہو صرف اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ 
اگلی صبح وہ دی ہوئی ہدایت کے مطابق ایک کمرے میں پہنچ جاتا ہے جہاں اور بھی بہت سے لوگ موجود ہوتے ہے۔ کچھ ہی دیر میں کمرے میں ایک شخص داخل ہوتا ہے اور سب سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔ آپ سب کو دانشوروں کی دنیا میں خوش آمدید یہاں ہم آپ کو سکھائے گیں کہ اصل میں انسان ہے کیا اور اس کی آزادی کیا ہے۔ ہمارے بنیادی سبق میں تین چیزیں زیر بحث لاہی جاۓ گی۔

1- مزہب 
2- رسم و رواج
3- معاشرہ۔
پہلے ہم انہیں سمجھے گیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھے گے کہ اس کو اپنی طاقت کے طور پہ کیسے استعمال کیا جائے اور اسے سے اگلے کو کیسے کمزور کیا جائے۔ کیونکہ یہ ہمارے مقصد کے حصول کے لئے بہت اہم ہیں۔

خالد: اور ہمارا مقصد ہے کیا؟

(جاری ہے)

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Yo y Dios (Episodio 1)

Yo y Dios (Episodio 12)