میں اور خدا (قسط نمبر 1)

(میں اور خدا ایک ایسا ناول ہے جو آپ کو حیرت کے سمندروں میں لے جاۓ گا، ان پوچھی پہلیاں سلجاۓ گا، جو ایک جھونپڑی سے لے کر محل تک کے سوچ کے مینار ہلاۓ گا۔عشقق، محبت، جنون، سکون،بغاوت سے ہوتے ہوئے ایک نئی دنیا میں لے جاۓ گا۔جو آپکو سوچنے پر نہیں بلکہ عمل کرنے پہ مجبور کرے گا، اس میں آپ تلخ باتیں ضرور سنے گے، لیکن ناول کے اختتام پر پوری بات واضح ہوجاۓ گی، تنقید آپکا حق ہے لیکن فتویٰ نہیں حتی کے میں اپنی بات پوری واضح کردو، ذیادہ سے زیادہ شیھر کریں لیکن میرا محنت پہ ڈاکہ ڈال کر نہیں بلکہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے۔)

میں اور خدا
Published from Blogger Prime Android Appمصنف: تیمور اجمل
قسط نمبر: 1

(منظر 1)

اچانک آنکھوں کے سامنے اندھیرا چاھ گیا۔ لیکن روشنی اتنی تیزی سے واپسی پلٹی جیسے کبھی گئی ہی نہ ہوں، تھوڑے سے ہواس بحال ہوئے تو سمجھ آئی جس گاڑی میں ، وہ سوار ہے وہ اب حادثے کا شکار ہوچکی ہے اور اسی کے ساتھ اسے ہلکی سی گنودگی محسوس ہوئی، لیکن آگ کی آواز کے سنتے ہی اس کے جسم میں عجیب سی پھرتی آگئی اور سارے مسافر گاڑی سے باہر نکلنے کی کوشش میں شاید اندھے ہوچکے تھے جنہیں صرف اپنا آپ ہی نظر آرہا تھا شاید خدا ہمیں قیامت کی جھلکی دکھا رہا تھا ، یہ پھر کسی گناہ کی سزا لیکن نہیں نیکیاں بھی تو نقش تھی، پھر انعام کے بدلے سزا کیوں؟ لیکن نہیں نہ تو یہ شاید گناہ کی سزا تھی اور نہ ہی نیکی میں اتنی طاقت دفاع ، میری زندگی تو اب تک ان کے وجود کے شک میں ہی گزری تھی لیکن آج یہ میری سوچ پر نہ جانے کیوں حاوی ہوچکے تھے شاید یہ اثر تھا ان مسافروں کی آوازوں کا جو مسلسل اپنے خدا کو پکار رہے تھے، لیکن مینے یہ بھی سنا تھا جو ہوتا ہے خدا کی مرضی سے ہی ہوتا ہے تو سب جانتے ہوئے بھی یہ اسے کیوں پکار رہے تھے؟ یہ سب شاید اسے نے تو کیا تھا، کیا وہ صرف ان کی پکار سننا چاہتا تھا یہ پھر اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاھتا تھا لیکن وہ یہ سب تکلیف دے کے کیوں کرتا ہے، ہزاروں راستے ہوسکتے ہیں یا شاید یہ تو گاڑی چلانے والے کی غلطی تھی لیکن یہ غلطی آج ہی کیوں؟ اس کی غلطی کی سزا ہمیں ہی کیوں؟ ہم نے اسے کیسے اپنی زندگی کی ڈور تھام دی، لیکن اس نے ہمیں مجبور نہیں کیا یہ سب تو ہم نے خود کیا تھا، لیکن۔۔۔ اچانک ایک دھماکے کی آواز ابھرتی ہے اور پھر اک عجیب سا سکون محسوس ہوتے ہوئے آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔

(منظر 2)

ٹرین پوری رفتار سے منزل کی طرف گامزن ہے، چاندنی رات جسے گہری خاموشی اور بھی پرکشش بنا رہی ہے اچانک کسی کی آواز سے وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آیا 
بھائی آپ کا موبائل گرا ہوا ہے سنبھال لے ورنہ کوئی اٹھا لے گا اور یہ کہتے ہی وہ سامنے والی سیٹ پہ بھیٹ گیا۔
اسنے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا شکریہ ادا کیا اور بعد میں اس شخص کی طرف بہانے بہانے سے دیکھتا رہا شاید اس کا حلیہ ہی کچھ عجیب سا تھا جو چیز اسے پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ اس عجیب حلیہ کے باوجود یہ شخص اتنا ایماندار کیسے ہوسکتا ہے، اور پھر وہ یہ سوچتے سوچتے نیند کی وادیوں میں چلا گیا کہ دنیا کا ہر خدا صرف اچھائی پہ ہی کیوں انعام دیتا ہے حالانکہ برائی بھی تو اسے نے ایجاد کی ہے، جب کوئی بندہ برائی کرتا ہے تو اس پہ ابلیس یا شیطان کی ملکیت کیوں زاہر کی جاتی ہیں کیا اس وقت خدا کی طاقت کمزور ہوجاتی ہے؟ یا پھر دونوں برابر کی طاقت رکھتے ہیں کبھی خدا جیت جاتا ہے اور کبھی شیطان جس کی جیت ہوتی ہے اسی کی ملکیت ہوتی ہے یا پھر خدا اور شیطان ایک ہی وجود کے دو الگ الگ نام ہیں؟ جو مختلف حرقات پہ اپنا لیبل لگا چکے ہیں؟ یہ کرو تو تم پہ ابلیس کی حکمرانی یہ کرو تو تم پہ خدا کی حکمرانی یا یہ سب صرف انسانی سوچ کا ایک کھیل ہے؟ 

(منظر 3)

وہ ان حسین پہاڑوں میں بیٹھا دل ہی دل میں بہت خوش تھا کی میں نے مخلوق سے محبت کرلی ہے اب میں خدا کی محبت بھی حاصل کرلوں گا لیکن اچانک فائرنگ کی آواز اور جسم میں اٹھتے ہوۓ درد کی وجہ سے وہ ان خیالات کی دنیا سے باہر آتا ہے اسے یہی آواز سننے کو ملتی ہے کہ مرگیا ہوگا۔ چلو! اگر کسی نے دیکھ لیا تو مسئلہ بن جاۓ گا۔
 آوازیں جا چکی تھی لیکن اس کے اندر اب ایک چیخ و پکار شروع ہوچکی تھی وہ یہی سوال خدا سے پوچھ رہا تھا کہ تو تو سب دیکھ رہا تھا میں تو تجھ تک پہنچنا چاھتا تھا زمانہ جنہیں تیرا نیک بندہ کہتا ہے انہوں نے ہی مجھ سے کہاں تھا کی مخلوق سے ہوکے ہی راستہ خدا تک پہنچتا ہے، کیا عورت تیری مخلوق نہیں؟ میں تو مخلوق سے محبت کرنے چلا تھا تونے ہی میرے دل میں عورت کی محبت کو بسایا دل تو تیرے قابو میں ہیں نا یا نہیں؟ تو تو جانتا ہے نہ میری محبت پاک ہے یہ شاید تو جانتا ہی نہیں؟ تو تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے یا یہ صرف ایک دلاسہ ہے جو کسی دانشمند نے کسی کمزور کو امید دینے کے لیے دیا تھا۔ اگر جانتا ہوتا تو یہ سب کیوں ہوتا؟ یہ شاید تونے کچھ بندے چن رکھے ھے کہ تو جن سے صرف محبت کرنا چاھتا ہے ان سے ان کی نسل سے؟ تونے یہ تفریق کیوں بنائی ہے؟ بلکہ ہم انسانوں سے تیرا تقاضا انصاف اور برابری کا ہے۔ 

(منظر 4)

وہ اپنی بندوق اپنے کندھے سے لگاۓ بالکل ہوشیار بیٹھا تھا کے اچانک اسے سامنے جھاڑیوں میں ہلچل محسوس ہوئی اور اس نے بندوق کی گولی چلادی سامنے سے ایک آواز بلند ہوئی- اے خدا!!!! سپاھی نے دوبارہ ایک بار پر بندوق کو حرکت دی اور بس اب وہاں گہری خاموشی تھی۔ وہ پھر سے دشمن کو ڈھیر کرنے کے لیے تیار بھیٹا تھا۔لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ایک گہری سوچ میں بھی جا چکا تھا، کہ آخر یہ مذھب کے پیچھے جنگ کیوں؟ جب مینے گولی چلائی تو مجھے خدا یاد آیا جس کو گولی لگی اس نے خدا کو پکارا لیکن شاید خدا کو میرا دین پسند تھا اس کا نہیں اس لیے خدا نے اس کی پکار پر اسے نہیں بچایا۔ یا پھر شاید ہم دونوں ہی غلط دین پہ تھے، خدا کسی اور دین والے کے ساتھ تھا۔ اس لیے خدا نے اس معاملے کا فیصلہ جس کی لاٹھی اس کی بھنس پر چھوڑ دیا۔ لیکن خدا سامنے آکے یہ جنگ بندی کیوں نہیں کرواتا یا اسے یہ خون ریزی پسند ہے؟ اگر ایک مذھب والا دوسرے مذھب والے کے ہاتھوں مرے تو اس کے ہم مذھب اسے شہید کہتے ہیں اور غیر مذھب کہتے ہیں کے جہنمی ہوکے مرا۔ یا تو تمام مذاہب کے مرنے والے شہید ہیں یا پھر سارے جہنمی یا پھر بس انسان یہ سب اپنی بیوقوفی میں کر رہا ہے، اسے خدا کے نام پہ عقلمند انسان صدیوں سے اپنے مقاصد کے لیے لڑوارہا ہے اور اس کی ذہن سازی مقدس مذھبی مقصد پہ کی جاری ہے اور جو ہلکا سا عقلمند بن جاۓ اور اس مقدس مذھبی مقصد پہ سوال اٹھا دے اسے کافر کرار دے کے مار دیا جاتا ہے شاید یہ دنیا ہے ہی کافروں کی یہاں ایک مذھب والا دوسرے کو کافر کہتا ہے تو دوسرے مذھب والا تیسرے کو حتہ کہ یہ کافر کا گول دائرہ چلتا ہی رہتا ہے ویسے ہی جیسے یہ گول دنیا چل رہی ہے، اچانک پھر سے بارڈرز پار سے فائرنگ شروع ہوجاتی ہے اور وہ جوابی فائرنگ میں مشغول ہوجاتا ہے۔

(منظر 5)

وہ قبیلے کے سردار کے گلے لگ کے رورہا تھا سردار اسے مسلسل ایک ہی چیز سمجھا رہا بیٹا انتقام ہمارا حق ہے، تم جنازوں سے فارغ ہوجاؤ ہم بدلہ ضرور لے گیں۔ وہ آپنے باپ اور دو جوان بھائیوں کو دفنا کے واپس گھر آیا تھا آج وہ مکمل بے گھر ہوچکا تھا کیونکہ اس کا آدھا خاندان پہلے ہی کسی نامعلوم بم دھماکے کی ضد ہوچکا تھا اور باقی بچا آج ریاستی فوجیوں کے ہاتھوں مارا جا چکا تھا اسے صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ وہ مرے نہیں بلکہ اپنے حق کے لیے لڑتے ہوئے مارے گئے ہیں وہ حق جو خدا نے انہیں دیا تھا اور ان کے ہم مذھب ساتھیوں نے ان سے وہ حق چھینا ہے۔ وہ یہ سوچتے سوچتے چلا اٹھا افففففف خدا یہ تماشا کیوں؟؟؟؟ ایک طرف تو کہتا ہے کے اپنے حق کے لیے لڑو اور دوسری طرف ہم جیسے جو اہنے حق کے لیے لڑتے ہیں، ہمیں غدار بول کے مارنے والے بھی تیرے دین کا حوالہ دیتے ہیں۔ تیرا وجود ہے ہی نہیں اے خدا، میں اب اس دانشمند انسان کی چال سمجھ چکا ہوں، کہ جو اس نے اپنے سلطنت بچانے کے لیے چلی تھی ہاں میں سمجھ چکا ہوں، کہ اس نے قیامت کا تصور کیوں دیا تھا تاکہ مظلوم کبھی بغاوت کرکے طاقتور نہ بن جائے۔۔ ہم جیسے کو ہر کوئی ایک ہی چیز کا دلاسہ تو دیتا ہے قیامت میں خدا انصاف کردے گا۔
 اس کے چہرے پہ ایک الگ سی مسکان تھی جس میں انتقال کے آنسو پوشیدہ تھے لیکن وہ بہت مدھم تھے اس کی مسکان بہت طاقتور لگ رہی تھی جیسے وہ کائنات کے سارے راز جان چکا ہو۔
                     

(جاری ہے)

Comments

  1. Wah Taimor bhai bohat behtreen andaz me likha hai apne appreciated apki mobile gir gai hai sambhal le werna koi le jaega ye aese hai k waqt beeta ja rahy hai khud ko sambhal le ❤

    ReplyDelete
    Replies
    1. Abdul rehman sahab apki hosla afzai ka bht bht shukria sir❤️

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Yo y Dios (Episodio 1)

Yo y Dios (Episodio 12)