میں اور اسلام (قسط نمبر 2)

Published from Blogger Prime Android App

میں اور اسلام 
مصنف: تیمور اجمل
قسط نمبر: 2

"نصار، تم بتاؤ کیا صورتحال ہے، کسی کو شک تو نہیں ہوا؟"

امام بارگاہ کا امام جس کا نام کلیم ہے وہ مسجد کے امام سے پوچھتا ہے۔

نصار: نہیں میں نے ان کے دل میں فرقہ واریت کے لیے نفرت بھر دی ہے انہیں مجھ پہ ذرا سا بھی شک نہیں ہوا ہے۔ 

کلیم: بہت خوب میں نے بھی بلکل یہی کیا ہے۔ ان کے دل اسلام کی وہ محبت جگا دی ہے کہ ہماری زرا سی چنگاری کل آگ کا کام کرے گی۔ 

نصار: لیکن ہم دونوں نے تو ان کے دلوں میں محبت جگایٔ ہے ہم انہیں ایک دوسرے کے مخالف کیسے لے کے آئیں گے؟  

کلیم : یہی تو کمال ہے، ہم نے انہیں محبت میں کٹ مرنا سکھایا ہے، ایک دوسرے کے لیے، لیکن کل یہی محبت انہیں ایک دوسرے سے لڑواۓ گی۔ کیونکہ ہم نے انہیں محبت کے آداب نہیں سکھاۓ، ہم نے انہیں محبت کی حدود نہیں بتائی، ہم نے انہیں صحیح اور غلط کا فرق نہیں سمجھایا، تم بس کل کا انتظار کرو اور پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔

لوگ امام بارگاہ اور مسجد سے فجر کی نماز پڑھ کر نکل چکے تھے، نصار اور کلیم کے بھیجے ہوئے بندو میں سے دو آپس میں لڑر رے تھے۔ ان کے اردگرد لوگوں کی بھیڑ جما ہونے لگ گئی، کسی نے دونوں سے پوچھا کیوں لڑ رہے ہوں؟ ان میں ایک نے بولا اس نے میرے فرقے کے بارے میں برا بھلا کہا ہے تو فوراً دوسرا بول پڑا نہیں اس نے میرے فرقے کے بارے میں برا بھلا کہا ہے۔ دونوں یہی بولتے رہے کہ ہمیں امام نے یہ بتایا ہے، کہ حق کو مت چھپاؤ، جو سچ ہے وہ صاف صاف کہو۔ اب ان کی بحث بہت آگے نکل چکی تھی۔ اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ چکی تھی۔ بس پھر کیا تھا ہر بندہ اپنے فرقے کی طرف کھڑا اس کا دفاع کر رہا تھا۔ کسی نے سوچا جاکر اماموں کو بلا لاۓ جو حق اور باطل کا فیصلہ کردیں اور یہ لڑائی رک جائے، لیکن امام تو پہلے سے ہی فرار ہوچکے تھے۔ بس پھر کیا کلیم اور نصار کے بھیجے ہوئے بندوں نے اس فساد کی ویڈیو بنانی شروع کردی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ فرقہ ورایت کی آگ سوشل میڈیا کے ذریعے امت مسلمہ میں لگ گئی، ہر کوئی کفر کا فتویٰ جیب میں رکھ کر پھرتا رہا، اور ایک دوسرے پھر بڑ چڑھ کر حملے ہونے لگے۔ کچھ عالم دین بھی رہنمائی کرنے آئے اور اس آگ کو کافی حد تک ٹھنڈا بھی کردیا، لیکن ایک دن پھر یہ آگ بڑی آسانی سے جل جائے گی۔ کیونکہ ہم نے اسلام کو کبھی بھی نہیں سمجھا، کیونکہ ہم نے قرآن کو کبھی بھی نہیں سمجھا۔ ہم نے اسلام کے آئین کے خلاف ورزی کو اپنا فرض سمجھا۔ ہمارا واسطہ اس اندھی محبت سے ہے کہ جس سے ہمارے محبوب نے نفرت کری۔ کہ جو خدا کے ہاں ناقابل قبول ہے۔ 

اسلام کی اساس یہ تین آیتیں ہے، یہ Limitations ہے اس شخص کے لیے جو دین کو سمجھنے نکلا ہے، جو دین پہ عمل کرنے نکلا ہے، جو خود کو مسلمان کہتا ہے اور یہ تینوں آیاتیں ہی اس آگ کو کبھی بھڑکنے نہیں دیں گیں جو ہم سب کو جلا کے راکھ کر سکتی ہے، جو اسلام کے وجود کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ
(سورۃ المائدہ ، آیت: 3)
ترجمہ: "آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا"

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا
(سورۃ آل عمران، آیت : 103)
ترجمہ: "اللہ تعالٰی کی رسّی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو"

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ
(سورۃ آل عمران، آیت: 132)
ترجمہ: "اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو"

اللہ نے ہماری لیے کتنی آسانی پیدا کردی، ہمیں واضح سمجھا دیا کہ میں نے تمھارا دین مکمل کردیا ہے، میری رسی جو کہ قرآن ہے، اسے مظبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹوں، اور ہمیں ایک جامع منشور بھی دے دیا کہ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو، یعنی قرآن اور حدیث کی۔ 

اب جو آپ کو اس منشور کے مخالف لے جاۓ، اسے آپ کیسے دین کا علمبردار سمجھ لیتے ہیں؟ آپ کیسے اس کی پیروی کرلیتے ہیں؟ اور جب آپ کے سامنے قرآن اور حدیث بیان کیا جائے تو آپ اس سے انکار کرتے ہیں۔ 
غور سے دیکھیں اس آیت کو۔ 

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعۡرَضَ عَنۡہَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتۡ یَدٰہُ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ وَ اِنۡ تَدۡعُہُمۡ اِلَی الۡہُدٰی فَلَنۡ یَّہۡتَدُوۡۤا اِذًا اَبَدًا 
( سورة الكهف، آیت :57)

ترجمہ: "اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے وہ پھر بھی منہ موڑے رہے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھا ہے اسے بھول جائے ، بیشک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے ( نہ ) سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے ، گو تو انہیں ہدایت کی طرف بلاتا رہے ، لیکن یہ کبھی بھی ہدایت نہیں پانے کے." 
_________________________________________

کلیم اور نصار اب اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے اپنی کامیابی کی داستان سنا رہے تھے۔

نصار: ساتھیوں ہمیں کوئی لمبی تحریک چلانے کی ضرورت نہیں پڑی ہم نے بڑی آسانی سے وہ آگ جلادی جو اس ملک میں کبھی بھی اسلام کی ہریالی نہیں آنے دے گی۔ لوگ اب اسلام سے متنفر ہونگے۔ 

کلیم: لیکن ابھی کام تھوڑا اور باقی ہے ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام مخالف پروپیگنڈا پہ کام کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے ہر مقصد کی بات کو حدیث بناکے بتانا ہوگا۔ ہمیں قرآن کی تشریح اپنے مقصد کے مطابق کرنی ہوگی۔ 

نصار: اگر کسی کو شق ہوگیا ؟ 

کلیم: یہاں لوگوں کو حدیث کےبارے میں صرف اتنا پتا ہے کہ اسے آگے بڑھانا ثواب ہے۔ انہیں تحقیق سے کوئی غرض نہیں، انہیں تو یہ بھی پتہ کہ صحیح اور ضعیف حدیث کیا ہوتی ہے؟ حدیث کے اصول کے کیا ہوتے ہیں؟ اگر دو حدیثیں صحیح ہو اور ایک دوسرے کے مخالف آجاۓ تو کیا کیا جائے۔ 

ان سب کی گفتگو کے درمیان ایک اور شخص کمرے میں داخل ہوتا ہے۔جس کا نام منیب ہے اور کہتا ہے مبارک ہو ساتھیوں ہم کافی حد تک کامیاب جارہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ہم اسلام کو دین شر بنوادے گیں۔ 

نصار: کیا ہمیں اسلام کے وجود کو جڑ سے نہیں مٹا دینا چاہیے؟

منیب: نہیں ہم یہ بیوقوفی نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ مسلمانوں کو متحد کردے گی۔ ہم اسلام کو اندر سے توڑے گیں، اور کھوکھلا کردے گیں، بظاہر مسلمان تو مسلمان ہی رہے گا۔ لیکن اس کی سوچ اس کا عمل سب کچھ اسلام کے خلاف ہوگا۔ 

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

Yo y Dios (Episodio 1)

Yo y Dios (Episodio 12)