میں اور اسلام (قسط نمبر 4)

Published from Blogger Prime Android App

میں اور اسلام 
مصنف: تیمور اجمل
قسط نمبر: 4

(آج کی قسط غور سے پڑھیے گا، اس میں مسلم فرقوں کی تفصیلات اور وجوہات ہے)

نصار اور کلیم اب سلمان کو لے کر منیب کے پاس آجاتے ہیں۔ نثار اور کلیم آنکھوں آنکھوں میں منیب کو اشارہ کر دیتے ہیں۔ منیب سلمان کو ہاتھ کے اشارے سے بولتا ہے کہ آؤ بیٹھو۔ اور پھر وہ سلمان سے کاغذ پر کچھ لکھنے کو کہتا ہے۔ اور پھر اس سے اس کی تاریخ پیدائش اور کچھ اور چیزیں پوچھتا ہے۔ پھر وہ سلمان کو اس کے مسائل کے بارے میں بتاتا ہے۔ سلمان حیران رہ جاتا ہے، کیونکہ جو مسائل اسے منیب بتاتا ہے وہ بالکل انہیں مسائل کا سامنا کر رہا ہوتا ہے۔ اچانک وہاں پہ گولیوں کی آواز شروع ہوجاتی ہیں، اور کچھ افراد اس کمرے میں داخل ہوتے ہیں کہ جس کمرے میں سلمان اور باقی سارے بیٹھے ہوتے ہیں۔وہ افراد کلیم نثار اور منیب کو گولیوں سے مار دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر سلمان آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو ان مسلح افراد میں سے ایک سلمان کو بندوق دکھاتے ہوئے کہتا ہے کہ جہاں ہوں وہیں رک جاؤ ورنہ تمہیں بھی گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔ اتنے میں سلمان زور زور سے بولنے لگ جاتا ہے، "تم نے اللہ کے ولیوں کو قتل کیا ہے تمھیں اس کی سزا ضرور ملے گی"۔ کمرے میں ایک اور شخص ہنستے ہوئے داخل ہوتا ہے اور کہتا ہے کون سے اللہ کے ولی؟ جنہوں نے تمھارا ماضی تمھارے سامنے کھول کر رکھ دیا، جنہوں نے تمھیں تمھاری فطرت بتائی، انہیں تم اللہ کا ولی سمجھتے ہوں، نادان لڑکے! چلو سنو، میں بھی تمھیں تمھارے بارے میں ساری باتیں بتاتا ہوں، اور پھر وہ شخص سلمان کو ساری باتیں بلکل ویسے ہی بتاتا ہے، جیسے اسے منیب نے بتائی ہوتی ہیں۔ سلمان یہ سارا ماجرہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور اس شخص سے پوچھتا ہے، آپ کون ہیں؟ اور یہ جو ابھی مرے ہیں یہ کون ہیں؟ وہ شخص کہتا ہے میرا نام عاقل ہے اور یہ جو یہاں مرے پڑے ہیں شیطان کے چیلے ہیں۔

سلمان: تو انہوں نے مجھے میرے بارے میں سب کچھ سچ کیسے بتا دیا؟

عاقل: انہوں نے کوئی جادوئی کمال نہیں کیا بلکہ کچھ انسانی علوم کی مدد سے تمھیں، تمھارے بارے میں بہت کچھ بتا دیا۔ 

سلمان: یہ انسانی علوم کونسے ہیں؟ اور یہ مجھ سے کیا چاہتے تھے۔

عاقل: یہ تمھیں پہلے کچھ انسانی علوم سکھاتے پھر تمھیں جادو کی طرف لے کر جاتے، پھر تم میں ابلیست بھرتے تاکہ تم اچھے اور برے کا فرق بھول جاؤ۔ پھر یہ تم سے اپنے مقاصد حاصل کرتے۔ اور جہاں تک بات ہے ان علوم کی انہیں حاصل کرکے کوئی بھی شخص کسی کے بھی بارے میں بھی کافی حد تک بتا سکتا ہے اور وہ یہ ہیں :

1. دست شناسی
2. علم قیافہ
3. علم نجوم
4. تحریر سے کردار شناسی
5. علم اعداد 

سلمان: کیا آپ مجھے یہ علوم سکھائے گیں؟

عاقل: یہ علوم صرف ایک اندازے کی حد تک استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ان پہ یقین کرنا بے وقوفی ہے، تمھیں یہاں ہزاروں مل جائے گیں جو تمھیں یہ علوم سکھائے گیں۔ 

اس کے بعد عاقل اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ چلو ہمیں اس شیطان عابد کو پکڑنا ہے، اگر وہ زیادہ دیر باہر رہا تو وہ اور بہت تباہی مچائے گا۔ جیسے ہی عاقل باہر نکلنے لگتا ہے سلمان اس کے قدموں میں گر جاتا ہے کہ وہ اسے بھی ساتھ لے چلے۔ عاقل مان جاتا ہے اور اسے بھی ساتھ لے کر چلا جاتا ہے۔
_________________________________________

دور پہاڑوں میں عابد کو اپنے ساتھیوں کی موت کی خبر مل چکی تھی۔ اس کے مخبروں کا جال ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ جس سے اسے با آسانی باہر کی دنیا کی اور اس کے کارندوں کی خبریں مل جاتی تھی۔ وہ اب اپنے باقی ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔ " میرے بھائیوں اب ہمارا راستہ مشکل ہورہا ہے۔ کیونکہ ہمارے کچھ دشمن بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ لیکن اب بھی ہمارا راستہ بہت آسان ہے، میں آپ کو حسن بن صباح کے بارے میں بتاتا ہوں، کہ کیسے انہوں نے خوبصورت لڑکیوں اور حشیش سے عالم اسلام کو ہلا دیا۔ اب دور الگ ہے یہ دونوں چیزیں ہر طرف دستیاب ہیں۔ ہمیں بس انہیں استعمال کرنا ہے۔ عابد اپنے ایک ساتھی سے مخاطب ہوتا ہے جس کا نام طیب ہوتا ہے، اور اسے ساری تفصیلات سمجھا دیتا ہے۔ کہ اسے کیسے اور کب کیا کرنا ہے۔ اور اسے یہ بھی کہتا ہے تمھارے ان سارے کاموں میں تمھاری مدد عائشہ کرے گی۔ 
_________________________________________

اب سعد ولید سے سوال کرتا ہے۔ کہ مسلمانوں میں اتنے فرقے کیونکر ہیں؟ کون سچا ہے اور کون جھوٹا؟ کون مسلمان ہے اور کون نہیں؟ ہم کونسے مسلمان بنے؟ کونسے فرقے کو چنے؟ 

ولید: انسان کے پاس ذہن اور عقل ہے جو ہر شخص کی مختلف ہے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی بلکل مختلف اور انسان کی اسی خصلت کی وجہ سے آپسی اختلافات جنم لیتے ہیں۔ جب ایک شخص اپنے ہم خیال سے ملتا ہے تو ایک گروہ بنتا ہے اور جب اس گروہ کو ایک لیڈر مل جائے جو اس کے نظریات کو منظم کرکے پیش کردے تو یہ گروہ ایک "مکتب فکر" کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آگے چل کر یہ ایک "مسلک" بنتا ہے اور پھر اگر اختلافات دوسرے "مکاتب فکر" یا "مسلک" سے زیادہ ہو تو یہ ایک فرقے کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اور سچا وہی ہے جو دین حق پر ہے اور دین حق، قرآن اور حدیث ہیں۔ جس کے عقائد ونظریات قرآن و حدیث سے نا ٹکراؤ کرتے ہوں وہ سچا ہے اور جس کا ٹکراؤ قرآن و حدیث سے ہو اس کے عقائد ونظریات باطل ہیں۔ اور تم وہ مسلمان بنو، جیسا بننے کا اللہ کا حکم ہے جس کا عملی نمونہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ تم اس فرقے کو چننا جو حق پر ہو یعنی قرآن و حدیث پر ہو۔ اور ہاں ایک امت کے کیٔ فرقے ہوتے ہیں اور ایک فرقے میں کیٔ مسلک اور ایک مسلک میں کیٔ مکاتب فکر۔ اور ان کے آپسی اختلافات میں شدد، ان میں نفرت کا باعث بنتی ہے۔ 

سب سے پہلے ہم مسلمانوں کے فرقوں کی مختصر تاریخ دیکھتے ہیں۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام بہت تیزی سے پھیلا، خلفاء راشدین کے زمانے میں ہی اسلامی سلطنت موجود بلوچستان سے لے کر مراکش تک پھیل گئی۔ روم اور ایران کی سلطنتیں بھی اسلام کی قوت کے آگے ٹہر نہ سکی۔ اور یہ سارا عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پندرہ سے بیس سال میں مکمل ہوگیا۔ 

مسلمانوں کی تلواروں نے روم و ایران کی فوجوں کو تو شکست دے دی مگر ان علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے دلوں کو فتح نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ: لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (سورۃ البقرۃ، 256) یعنی "دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں"۔ تمام اہل عرب نے تقریباً اسلام قبول کرلیا، لیکن غیر عرب نے اتنے جلدی اسلام قبول نہیں کیا، ظاہر ہے وہ صدیوں سے رائج اپنے مذہب کو اتنی آسانی سے نہیں چھوڑ سکتے تھے اور مسلمان ان کو زبردستی اسلام قبول بھی نہیں کرواسکتے تھے۔ جنہوں نے ان لوگوں میں سے اسلام قبول کیا وہ اپنے سابقہ مذہب کے تصورات بھی ساتھ لائے جس کے وجہ سے عہد صحابہ میں ہی مختلف اختلافات سامنے آنے لگے اور فرقہ بننے کا عمل شروع ہوگیا۔ شروع شروع میں یہ سیاست کی حد تک رہے لیکن آہستہ آہستہ یہ مذہبی فرقے بننے لگ گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ خوراج، کرامیہ، مرجئہ، مجسمہ، قدریہ، جبریہ اور نہ جانے کتنے فرقے بنے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غائب ہوگئے۔ 

اس دور کے تین فرقے اب بھی باقی ہیں، ان میں سے ایک شیعہ یا اہل تشیع کا فرقہ ہے، جو مسلمان کی کل آبادی کے تقریباً 10٪ افراد پر مشتمل ہے دوسرہ فرقہ اہل سنت والجماعت ہے، جو مسلمان کی کل آبادی کے تقریباً 90٪ افراد پر مشتمل ہے۔ ان دونوں کے علاوہ خوارج کے فرقے سے الگ ہونے والا ایک چھوٹا فرقہ آج بھی موجود ہے جسے "اباضی" کہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان فرقوں کے مزید ذیلی فرقے بنتے گئے۔ خوراج میں یہ عمل بہت زیادہ رہا، اہل تشیع کے اندر کچھ کم اور اہل سنت والجماعت میں ان سب سے کم جن کے ذیلی فرقے نسبتاً مقامی رہے۔

ان فرقوں کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ عہد بنو امیہ اور بنو عباس میں یونانی کتب کے تراجم عربی میں ہوۓ۔ ان کتب میں جہاں یونان کی سائنس اور دوسرے علوم تھے وہاں مذہب اور الہیات کے بارے میں انہوں نے جو بھی سوچا وہ بھی درج تھا۔ جس سے وہ بھی عربی میں منتقل ہوگیا۔ اس کی وجہ سے نئی افکار پیدا ہوئی اور نئے انداز میں سوچا جانے لگا ۔اس کی وجہ سے مختلف فرقے جیسے کہ معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ پیدا ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ان کے مسائل ہی نہ رہے جن میں یہ اختلاف کیا کرتے تھے، تو پھر ان مسالک کی اپنی افادیت ہی ختم ہو گئی، اور ان کی بحث کتابوں میں دفن ہوگئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے فرقے پیدا ہوئے اور ختم ہوگئے۔

آج سے دو سو برس پہلے جب مسلمان سیاسی طور پر زوال پزیر ہوئے اور ان کے بڑے علاقائی حصوں پر مغربی طاقتیں غالب آگئی، تو ان مغربی طاقتوں نے Divide and rule کی پالیسی اختیار کی۔ اور دوسری طرف زوال کی وجہ سے مسلمانوں میں اخلاقی انحطاط پیدا ہوا جس سے مزید گروہ اور فرقے پیدا ہوئے جو اب بھی باقی ہیں۔ مغربی طاقتوں کے مقابل بہت سی سیاسی، عسکری، دعوتی اور علمی و فکری تحریکیں پیدا ہوئی جن سے مزید گروہ پیدا ہوئے۔ انہیں فرقہ کہنا غلط ہوگا لیکن کیونکہ یہ ایک منظم گروہ کی شکل رکھتے ہیں تو انہیں امت مسلمہ کے اندر "امتیازی گروہ" کی حیثیت سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔ 

آؤ ذرا تمھیں ذرا مسلمانوں کے فرقوں کے بارے میں بتاتا ہوں اور ان کے درمیان اختلاف کو بھی سمجھاتا ہوں۔

وہ لوگ جو خود کو "مسلم" کہتے ہیں، ان کے مختلف فرقوں کو مختلف مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان بنیادوں میں مذہبی عقائد، امتیازی مذہبی اعمال، مذہبی تحریک اور فقہی مسلک شامل ہیں۔ 

مذہبی عقائد اور اعمال کی بنیاد پر تقسیم:

مذہبی عقائد اور اعمال کی بنیاد پر امت مسلمہ کی بنیادی فرقے دو ہیں: اہل سنت اور اہل تشیع۔ اس کے بعد ان میں ذیلی فرقے اور گروہ ہیں۔

1. اہل سنت: انہیں ہم تین طریقوں سے مختلف گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

1.1 . سلفی اور غیر سلفی گروہ (برصغیر میں یہ تقسیم بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اور باقی دنیا میں سلفی اور غیر سلفی کے طور پر)
1.2 . صوفی اور غیر صوفی گروہ (صوفی گروہ میں ان کے مختلف سلسے شامل ہیں،ان کے علاوہ ایک گروہ وہ بھی ہے جو مروجہ تصوف کو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ نہیں سمجھتا)
1.3 . روایت پرست اور جدت پسند گروہ (اس میں متعدد گروہ پائے جاتے ہیں)

2. اہل تشیع: ان کے متعدد گروہ ہیں۔

2.1. اثنا عشری
2.2. اسماعیلی یا آغاخانی
2.3. زیدی 
2.4. علوی، دروز اور دیگر فرقے
2.5. اباضی: یہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں سے ہٹ کر ہیں۔

3. منکرین سنت و حدیث

4. دیگر مذہبی گروہ جو خود جو مسلمان سمجھتے ہیں لیکن مسلمان انہیں اسلام سے خارج سمجھتے ہیں جیسے، قادیانی (احمدی)، بہایٔ وغیرہ۔

مذہبی تحریکوں کی بنیاد پر بننے والے گروہ: 

امت مسلمہ کی تاریخ اصلاحی تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔ ان میں بہت سی تحریکیں مختلف ادوار میں پیدا ہوئی اور اپنا کرداد ادا کرکے ختم ہوگئی۔ پچھلے دو سو سالوں میں مسلمانوں کے زوال کے نتیجے میں ان میں شدید ردعمل پیدا ہوا ہے۔ اس وقت مسلم دنیا میں موجود تحریکوں کو اس طریقے سے تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1. احیائے اسلام کی تحریکیں اور جماعتیں

1.1. انقلابی تحریکیں جیسے انقلاب ایران کی تحریک، قدیم اخوان المسلمون، حزب التحریر وغیرہ۔
1.2. موجودہ نظام کے اندر رہ کر کام کرنے والی سیاسی تحریکیں جیسے مصر اور لیوانٹ (شام،اردن،فلسطین اور لبنان) کی جدید اخوان المسلمون، برصغیر کی جماعت اسلامی، ترکی کی اسلامی تحریک، انڈونیشیا کی محمدی تحریک وغیرہ۔
1.3. مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی عسکری تحریکیں جیسے افغانستان و پاکستان کے طالبان، انڈونیشیا اور فلپائن کے مسلح گروہ چیچنیا کی تحریک وغیرہ۔

2. تبلیغی و دعوتی تحریکیں جیسے برصغیر کی تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی وغیرہ

3. علمی، فکری اور تعلیمی تحریکیں جیسے برصغیر میں تحریک علی گڑھ، ندوۃ العلماء، مدرسۃ الاصلاح وغیرہ۔ 

فقہی مسالک کی بنیاد پر بننے والے گروہ:

انہیں فرقہ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ مختلف مکاتب فکر ہیں۔ جو تاریخ کے مختلف ادوار میں فرقے کی صورت اختیار کرگئے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے ساتھ رہنا سیکھ لیا۔ آج کل یہ فرقے کی حیثیت نہیں بلکہ مخص مکتب فکر کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ان کے اختلافات میں بہت زیادہ شدت نہیں ہے۔ ان میں سے پہلے پانچ کا تعلق اہل سنت سے ہے جبکہ بقیہ اہل تشیع اور اباضی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

1. حنفی
2. مالکی
3. شافعی
4. حنبلی
5. ظاہری
6. جعفری
7. زیدی
8. اباضی

(جاری ہے.....)

Comments

Popular posts from this blog

Yo y Dios (Episodio 1)

Yo y Dios (Episodio 12)