گھڑی

 




گھڑی 
یاداشت: تیمور اجمل

تاریخ 13 اپریل، سال یاد نہیں یا تو دو سال پرانی بات ہوگی یا پھر تین یا اگر مجھ پہ گزرتے وقت کی کیفیت سے اندازہ لگاؤں تو 20 سال پرانا واقع لگتا ہے، بہرحال 3 سال کے اندر کا ہی واقعہ ہے۔ شروع سے ہی پہاڑوں سے بے انتہا کشش کے سبب آبائی گاؤں جانے کا اتفاق ہوتا رہتا تھا۔ اس بار بھی کہانی انہی پہاڑوں کی تھی، زندگی ان چند گزشتہ سالوں میں اور حال کے چل رہے وقت میں بڑے عجیب سبق سکھارہی تھی اور ہے، بڑے منفرد اور غیر محسوس طریقوں سے راستے بدل رہے تھے، سوچ بدل رہی تھی راز کھل رہے تھے اور اب بھی کہانی بدستور جاری ہے، بہرحال یہ کہانیاں مجھے منظر عام پہ لانے سے ہمیشہ اکتاہٹ رہی ہے، کیونکہ ان اسباق اور حادثات نے مجھے خود بے انتہا الجھایا ہے اور کبھی کبھی تو اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ ایک مسافر سے راستے عشق کرچکے ہیں، جس کی وجہ سے یہ راستے بھول بھلیاں بن چکے ہیں اور جب ہمت ٹوٹ جائے اور ہار قبول کرنے کا ارادہ بنے تو یہ راستے اس قدر سیدھے ہوجاتے ہیں کہ منزل بلکل واضح نظر آنے لگتی ہے، اور بس پھر کیا جیت کی امید اور منزل کی چاھ پھر سے ایک تھکے ہارے وجود کو ازسرنو منظم کردیتی ہے ۔ یہ کہانی میں اس لیے بیان کر رہا ہوں، کیونکہ اس سے میں نے دو بہت ہی قیمتی سبق سیکھے جنہوں نے آگے چل کر مجھے ٹوٹنے نہیں دیا۔  

صبح ہوتے ہی میں دوستوں کے ساتھ پہاڑوں پر نکل جاتا تھا، لیکن ہم زیادہ دور نہیں جا پاتے تھے، جس کی وجہ یہ تھی کہ شروع میں تقریباً 10 پہاڑ سخت پتھریلے تھے اور گرمی کی شدت بے انتہا تھی اور اس پہاڑی سلسلہ کا نام دامن مہاڑ ہے اور آپ اس وادی سون یا سون سکیسر بھی کہہ سکتے ہیں، مگر ان پہاڑوں میں قدرت کا بے انتہا حسن اور قدرتی وسائل، جیسے نمک، کوئلہ وغیرہ، کھیوڑہ اور دوسری نمک کی بڑی کان بھی ان پہاڑوں میں واقع ہے ، تاریخی اعتبار سے بھی کافی مضبوط ہے، اور بے انتہا آبشاریں، قلعے، کھنڈرات، اور کافی نایاب جانور بھی۔ بہرحال موضوع یہ نہیں۔ 

دوستوں سے کہا کہ پہاڑوں میں مزید آگے جانا چاھتا ہوں تو انہوں نے ہنس کر معذرت کرلی اور کہا ہمیں نہیں دیکھنی خوبصورتی ہم بس یہی تک خوش ہیں، تو مجبوراً میں نے اکیلے ہی پہاڑوں کی خوبصورتی دیکھنے کا فیصلہ کیا، جس کی نیت سے الصبح 20 کھجوریں اور ایک ریگولر پانی کی بوتل اور چھوٹی سے چھری لے کر میں نے سفر کا آغاز کیا، پہاڑوں پر موبائل کے سنگل نہ ہونے کے سبب اور فوٹوگرافی کرنے کے خیال سے باز رہنے کے لئے موبائل گھر پر ہی چھوڑ دیا، لیکن بوریت کے احساس سے دور رھنے کے لیے ایک سادہ سا موبائل اور ہینڈ فری ساتھ رکھ لی۔ اور سفر شروع کردیا دو گھنٹے مسلسل پہاڑوں پہ چلنے کے بعد پتھریلے پہاڑ اب پھیچے رہ چکے تھے، اور میرے سامنے اب ہریالی سے بھرپور پہاڑ شروع ہوچکے تھے ان پہ چھڑنے کا راستہ بھی خطرناک ہوچکا تھا، کیونکہ میں بلکل سیدھا جارہا تھا تاکہ راستہ نہ بھٹکوں، ایک جگہ قیام کرکے کچھ پنیر (جوکہ پہاڑوں میں عام لگے ہوئے تھے) کھاۓ تاکہ جسم کا درجہ حرارت صحیح رہ سکے اور پھر آگے چل پڑا، سامنے بہت اونچا پہاڑ تھا، تقریباً 1 گھنٹہ اوپر چھڑنے کہ بعد جب میں اونچائی پہ کھڑا ہوکے قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہورہا تھا، تو اچانک ہلکہ سا چکر آیا میں فورا سنبھل تو گیا لیکن بدقسمتی سے زمین پہ وہ گرپ نہیں رکھ پایا اور خوش قسمتی سے چڑھائی کی مخالف سمت جہاں کوئی کھائی نہیں تھی گرگیا، اور پوزیشن درست نہ ہونے کے سبب (Anti Clock wise) روٹیشن میں تقریباً 20 یا 30 سیکنڈ گھومتے ہوئے گرنے کے بعد اچانک ایک پتھر پہ سیدھا، پیر لگنے سے گرنے کا عمل رگ گیا اور میں مزید گرنے سے رک گیا، اور کچھ دیر بعد جب حواس بحال ہوئے تو میں نے فوراً نقصان کا اندازہ لگانا شروع کیا، میری زبان دانتوں میں آنے کی وجہ سے کٹ چکی تھی اور جسم پہ ہلکی پھلکی خراشیں تھی، الٹے طرف کی پسلیوں میں پیچھے کی طرف زے کافی چوٹ آئی تھی، اور سر میں بھی کافی اندرونی چوٹ لگ گئی تھی اور جو پیر پتر پہ لگا تھا اس کا ایڑھی کی طرف سے اندرونی گوشت پٹ چکا تھا، اور الٹے ہاتھ کے بازوں اور ٹانگ میں موچ آچکی تھی جنہیں اب ہلانہ بھی مشکل لگ رہا تھا، لیکن بہرحال میں شکر کر رہا تھا کہ جسم سے خون نہیں نکلا (سواۓ زبان کے جس سے بے انتہا خون بہہ چکا تھا) اور کوئی ہڈی بھی نہیں ٹوٹی، اٹھنے کی کوشش کی لیکن بلکل بیکار، اور پورے جسم میں بڑھتے ہوئے درد نے وہی بے بسی کے عالم میں لیٹنے پر مجبور کردیا، کہ اچانک میری آنکھیں اک عجیب منظر دیکھتی ہیں، سامنے پہاڑ پر بھیڑوں کا جھنڈ ہے جن میں سے ایک بھیڑ (بکری) بڑی تیزی سے اوپر پہاڑ پہ چڑ رہی ہے اور اچانک وہ بھی میری طرح نیچے گرتی ہے، اور پھر وہ اور میں زخمی حالت میں بے بسی سے کسی مددگار کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، اچانک کچھ گیدڑ (اس وقت صحیح طرح سے دیکھ نہ پانے کی وجہ سے میں انہیں بھیڑیا سمجھا تھا) اس بکری کی طرف بڑھتے ہیں اور میری آنکھوں کے سامنے اسے چھیڑ پھاڑ دیتے ہیں، اس منظر کو دیکھتے ہی فورا اک شعر کی آمد ہوئی جو کہ کچھ یوں تھا۔ 

" زمیں پہ رہ کہ نہ بے چینی پاس آتی ہے
یہ آسماں کی چاھ ہی اکثر ہمیں ستاتی ہے
بچھڑ کے قافلے سے بھیڑ، بھیڑیوں کی ہوتی ہے
یہ تنہائی کی مستی جان بھی لے جاتی ہے"
(تیمور اجمل)

اس بھیڑ کا حال دیکھنے کے بعد مجھے اپنے ساتھ ہونے والی کہانی بھی واضح نظر آچکی تھی۔ ان گیدڑوں کا اگلا شکار میں ہوسکتا تھا کیونکہ ہمارے درمیان تقریباً آدھے کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ لیکن میرے دوسرے پہاڑ پہ ہونے کی وجہ سے انہیں مجھ تک پہنچنے میں کافی وقت لگ سکتا تھا۔ 

پہلا سبق جو میں نے سیکھا وہ یہ تھا کہ تنہائی کی مستی جان لے سکتی ہے۔ 

میں نے یہاں لفظ مستی لکھا ہے یعنی وہ بھیڑ گاس کے لالچ میں ہی اوپر بھاگی ہوگی، ویسے ہی ہم انسان اکثر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی چاھ میں تنہا بھاگتے ہیں اور اپنے دوستوں، رشتےداروں اور عام معاشرے سے الگ ہوجاتے ہیں اس ڈر سے کہ ہمارا ساتھ کہی انھے ہمارے برابر کھڑا نا کردے، لیکن انجام یہی ہوتا ہے کہ جب ہمیں ٹھوکر لگتی ہیں تو ہمارا حال بھی اس بکری جیسا ہوتا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو چھوڑتے ہیں لوگ ہمیں نہیں۔ 

لیکن پھر بات خود پہ آئی، تو سمجھ آئی کہ میں نے تنہائی مستی میں نہیں، مجبوری میں چنی تھی۔ میں تو چاھتا تھا کہ میرا ہجوم میرے ساتھ چلے پر وہ انکاری تھے، تکلیفوں کے، نہی منزل کی تلاش کے انہیں پسند تھی تو بس اک محفوظ سرحد کی زندگی، اک راہج غلامی کی درندگی، جو قدرتی آزادی کے باوجود انہیں خود کی کھینچی ناجائز سرحدوں میں محدود رکھے ہوئے تھی۔ اگر وہ چاھتے تو زندگی حسین بھی ہوسکتی تھی اگر وہ سرحدوں سے پرے ہوتے، غلامی سے باغی ہوتے، میں سمجھ چکا تھا، کہ میں چاھ کر بھی ہزار دلیلیں دے کر بھی انہیں انہی کی غلامی کی سرحدوں سے آزاد نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ سرحدیں ان کی زندگی کی ظامن ہے، ان کے مطابق یہ سرحد سے پار موت کا شکار ہوجاہینگے، یہ صحیح بھی تو تھے اس بکری کا حال میں خود دیکھ چکا تھا، جو سرحد سے پار گئی، اور زندگی سے ہار گئی۔ ہاں اگر وہ صحیح سلامت اونچائی تک پہنچ جاتی اور کسی حادثے کا شکار نہیں ہوتی، تو یہ ساری بھیڑیں اس کے پیچھے جاتی، اور وہاں پھر اک سرحد قائم ہوجاتی، جس کے پار موت کو لازم سمجھا جاتا، اور پھر ایک دن کوئی اور بکری الگ ہوکے سرحد کو مزید تقویت دیتی، یا پھر حادثے کا شکار ہوکے ماری جاتی، اور ساری بکریاں اس کے تنہائی کے چناؤ کو مجبوری کے بجائے مستی کا نام دے کر کہانی کو سبق آموز بنا دیتی، کہ جس سے غلامی کا ذوق اور موت کا خوف آنے والی بکریوں کو سرحد پار جانے سے ہمیشہ باز رکتا۔ 

اب درد بڑھ رہا تھا اور موت کا خوف بھی، دل کیا کہ چیخو و پکار شروع کردوں، لیکن کیا فاہدہ یہاں کون سہ کسی نے مجھے سننا تھا، پھر دل میں خیال آیا جہاں کوئی نہیں وہاں رب ہوتا ہے۔ لیکن رب بھی تو یہی کہتا ہے مجھ پہ بھروسہ کر میں تیرا ساتھ دونگا، تو اپنی حالت بدلنے کی کوشش کر میں تیری حالت بدل دونگا۔ 

ناجانے کتنی ایسی بکریاں گر کر گیدڑوں کا شکار ہوجاتی ہیں، جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ وہ اس حادثے کو اپنا اختتام سمجھ لیتی ہیں، وہ اس آس میں مرجاتی ہیں کہ کوئی مددگار آۓ گا، لیکن وہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ یہ راستہ تنہائی کا راستہ ہے جب تک منزل نہیں وب تک ہجوم نہیں۔ وہ تنہائی کا راستہ جو انہوں نے مجبوری میں چنا ہوتا درحقیقت مجبوری نہیں ہوتی بلکہ رضامندی اور بغاوت کی ابتداء ہوتی ہے ، سرحد کی غلامی سے چاھے وہ جونسی بھی سرحد ہو۔ اور جب وہ منزل پہ پہنچتی ہیں تو انقلاب آتا ہے سرحدوں کا پھیلاؤ ہوتا ہے پھر کوئی اور آتا ہے پھر نیا انقلاب آتا ہے، پھر سرحدوں کے نقشے بدلتے ہیں۔ لیکن یہ لازم ہے کہ جب آپ گرو تو لڑو، خود کو بچانے کے لیے ورنہ آپ کی ہلکی سی کمزوری اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کی امید آپ کو گیدڑوں کا شکار بنا دے گی۔ اور زمانہ آپ کی تنہائی کو مستی کا نام دے گا، اور آنے والی نسل کو اس جدوجھد سے باز رکھے گا۔ اب اگر راستہ چن لیا ہے تو پھر لڑیں ورنہ چپ چاپ غلامی کریں کیونکہ آپ کا بیچ میں ہار ماننا، آنے والی نسل کو تباہ اور ناامید کرسکتا ہے۔ 

بس تو دوسرا سبق یہ تھا کہ، کہ چاھے کچھ بھی ہوجاۓ لڑنا ہے خود کو بچانے کے لیے، ہر طرح کے گیدڑوں سے کیونکہ یہ راستہ خود چنہ ہے۔ ہار نہیں ماننی۔ مدد کے لیے چیخ و پکار میں توانائی برباد کرنے سے بہتر خود کے زخمی وجود کو گیدڑوں سے بچانا ہے اور محفوظ مقام تک لانا ہے، جب زخم بھر جائیں تو پھر منزل کی طرف جانا ہے۔ کیونکہ تنہائی میں چیخوں و پکار سے کوئی مددگار نہیں آتا بلکہ آپ گیدڑوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ 

بس یہی سوچ کر اپنا زخمی بدن اٹھا کر میں زخمی اور موچ آۓ ہوئے پاؤں کے پنجے اور دوسرے ہاتھ میں لکڑی کا ٹکڑا تھامے گھر کو چل پڑا، تفصیلات سفر پھر کبھی سہی۔ 

یہ گھڑی میرے اس حادثے کی ساتھی ہے، کہ جس نے مجھے زندگی کہ دو اہم سبق سکھاۓ۔ 


Comments

Popular posts from this blog

Yo y Dios (Episodio 1)

Yo y Dios (Episodio 12)