میں اور خدا (قسط نمبر 3)

(میں اور خدا ایک ایسا ناول ہے جس میں صرف کردار تصوراتی ہیں بلکہ واقعات اور حالات حقیقی دنیا سے ماخوذ ہیں، ایک ایسا ناول جو آپ کو حیرت کے سمندروں میں لے جاۓ گا، ان پوچھی پہلیاں سلجاۓ گا، جو ایک جھونپڑی سے لے کر محل تک کے سوچ کے مینار ہلاۓ گا۔عشقق، محبت، جنون، سکون،بغاوت سے ہوتے ہوئے ایک نئی دنیا میں لے جاۓ گا۔جو آپکو سوچنے پر نہیں بلکہ عمل کرنے پہ مجبور کرے گا، اس میں آپ تلخ باتیں ضرور سنے گے، لیکن ناول کے اختتام پر پوری بات واضح ہوجاۓ گی، تنقید آپکا حق ہے لیکن فتویٰ نہیں حتی کے میں اپنی بات پوری واضح کردو، ذیادہ سے زیادہ شیھر کریں لیکن میرا محنت پہ ڈاکہ ڈال کر نہیں بلکہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے۔)

Published from Blogger Prime Android Appمیں اور خدا 
مصنف: تیمور اجمل
قسط نمبر :3

(منظر 1)
شاید یہی وہ سوال تھے کے جن کے جواب ملنے پہ مزید سوالات اٹھنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی تھی، لیکن ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں تھا، اسے اپنا وہ وقت یاد آگیا جب وہ خدا پہ ایمان رکھتا تھا، اس کے وجود پہ ایمان رکھتا تھا، ایک دن اچانک اس نے فیسبوک پہ ایک پوسٹ پڑھی،جس نے اس کے ایمان کی بنیاد ہلا دی، ہاۓ افسوس اتنا کمزور ایمان تھا، جو ایک ہلقے سے سوال نے اس کا ایمان ہلا دیا، اس کا یقین کمزور کردیا، اس کے پاس دو ہی راستے تھے یا مذھبی دلیل قبول کرتا، یا عقلی دلیل ایجاد کرکے مذھبی دلیل کے تابع کرتا، یا ایک تیسرا راستہ بھی تھا جس پہ وہ بلقل نہیں چلنا چاھتا تھا وہ تھا ملحد ہونا، خدا کے وجود سے انکار کرنا، اور مذھبی دلیل وہ کونسی مانتا؟ کوئی خدا کو کسی حد تک تسلیم کرتا کوئی کسی اور حد تک وہ مکمل الجھ چکا تھا۔ اسے آج بھی یاد ہے کہ جب اس نے یہ سوال اپنے قریبی دوست احباب سے پوچھا تو اسے یہ ہی کہا گیا: "سکندر" چپ ہوجاؤ تمھاری عقل خدا تک پہنچ نہیں سکتی۔
لیکن وہ ہمیشہ انہیں سمجھاتا تھا کہ میں اپنی عقل کو خدا تک پہنچانا نہیں چاھتا بلکہ میں تو عقل سے خدا کو منوانا چاھتا ہوں۔
اب سکندر کچھ مطمئن تھا کیوں کہ وہ اپنی عقل سے خدا کو تسلیم کر چکا تھا، اس کے وجود کو تسلیم کر چکا تھا۔ لیکن اب بھی کچھ سوالات باقی تھے، وہ یہی سوچتا ہوا باہر کی طرف نکل گیا کہ تھوڑی تازہ ہوا لے۔
وہ بازار میں ایک ہوٹل پہ بیٹھ کے چاۓ پی رہا تھا۔
کہ اچانک اسے باہر فائرنگ کی آواز سنائی دی، وہ تھوڑا گھبرا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد ہی فائرنگ بند ہوگئی، وہ حالات کا جائزہ لینے باہر گیا۔
سڑک پر اسے نے دو لاشیں پڑی ہوئی دیکھی، جنہیں فائرنگ کرکے مارا گیا تھا۔ 
وہ واپس ہوٹل میں آیا اور ہوٹل والے سے پوچھا: کون ہیں یہ جنہیں مارا گیا ہے؟
ہوٹل والا: ایک علاقے کا سیاستدان ہے جو اس الیکشن میں یقینن جیتنے والا تھا۔
سکندر: اور دوسرا؟
ہوٹل والا: دوسرا اس علاقے کا بہت رہیس شخص تھا۔
سکندر : انہیں کس نے مارا ہوگا؟
ہوٹل والا: صاحب یا تو کسی نے اقتدار کے لالچ میں مار دیا ہوگا اور دوسرے کو اس کے بیٹے نے پیسے کے لالچ میں لیکن یقینی طور پہ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
سکندر: خدا خیر کرے۔

سکندر اب ہوٹل سے باہر آچکا تھا اور پارک کی طرف جارہا تھا اور اسے سارے واقعے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ پارک میں لگی ایک بینچ پہ بیٹھ گیا اور آس پاس کہ مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ کہ اچانک ایک خیال اس کے دماغ میں آیا، کیا دنیا کا نظام آج تک بدلہ ہے؟ سورج دن کی شان اور چاند رات کی جان بدستور رکھے ہوئے ہے اپنا وجود، وقت کا پہیہ چلتا ہی جارہا ہے, خدا ایک ہی ہے، دو ہوتے یا دو سے زائد تو اقتدار کی جنگ ہوتی، ہر خدا اپنی الگ الگ مخلوق بناتا، اور وہ مخلوق آپس میں لڑتی رہتی، جس خدا کی مخلوق جیت جاتی، وہ خدا طاقتور کہلاتا، خداؤ کی الگ الگ اپنی دنیا ہوتی، انکی الگ الگ مخلوق ہوتی، اور ضاہری سے بات ہے ہر خدا چاھتا کے اس کی مخلوق سب سے اعلیٰ ضاہر ہو۔ اگر خدا کا بیٹا ہوتا، تو وہ ضرور نظام میں تبدیلی لاتا، وہ سورج کو دن کے بجائے رات میں نکالتا، لیکن نہ نظام بدلہ، نہ ہی کوئی الگ مخلوق دریافت ہوی، یانی خدا کا کوئی بیٹا نہیں اور اگر بیٹا نہیں تو خدا کا کوئی باپ بھی نہیں, کیوں کے اگر بیٹا ہوتا تو کائناتی نظام بدلتا، لیکن آج تک کائنات کے ایک اصول بھی نہیں بدلہ، اور اگر تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خدا کا کوئی بیٹا یا باپ ہے تو اس طرح تو خداؤ کا ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ یانی اس طرح تو پھر خدا بھی ایک مخلوق کہلائے گی۔ اور مخلوق دوسری مخلوق کیسے بنا سکتی ہے؟ اگر بنا سکتی تو انسان آج ہزاروں مخلوقات کا خدا ہوتا، اور جب ہر کوئی خدا ہوتا تو مخلوق کا تصورِ ہی ختم ہوجاتا، اور جب مخلوق کا تصور ختم تو خدا کو خدا کون کہے؟  
زیادہ الجھتے نہیں ہیں زرا آسان زبان میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر آپ کسی بھی چیز کی ایجاد کی گہرائی میں جائیں تو آپ اس کے مالک کے حوالے سے تو مطمئن ہوجاۓ گیں، لیکن ایجاد کرنے والے کے حوالے سے نہیں، کیوں کہ جب بات آتی ہیں ایجاد کی تو انسانی عقل کسی کو حتمی ایجاد کرنے والا تسلیم نہیں کرتی، آۓ ذدا مثال سے سمجھتے ہیں، یہ موبائل جو آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ ہیں تو اس کے مالک لیکن آپ نے یہ ایجاد نہیں کیا، چلے صرف اس کی اسکرین پہ بات کرتے ہیں، اسے موبائل بنانے والی کمپنی نے کچھ زرات کو لے کر ایک اسکرین بنا ڈالی، لیکن اس زرات کو کس نے بنایا یہ سوال آجاتا ہے، 

(منظر 2)

بیٹا میرا نام عاقل ہے۔
اور آپکا نام کیا ہے بیٹا؟
جناب عاقل صاحب میرا نام سعد ہے.
عاقل صاحب کچھ سوالات ہیں کیا آپ سے پوچھ سکتا ہوں؟
سعد بیٹا ضرور پوچھو۔
عاقل صاحب دنیا کا ہر خدا صرف اچھائی پہ ہی کیوں انعام دیتا ہے حالانکہ برائی بھی تو اسے نے ایجاد کی ہے، جب کوئی بندہ برائی کرتا ہے تو اس پہ ابلیس یا شیطان کی ملکیت کیوں زاہر کی جاتی ہیں کیا اس وقت خدا کی طاقت کمزور ہوجاتی ہے؟ یا پھر دونوں برابر کی طاقت رکھتے ہیں کبھی خدا جیت جاتا ہے اور کبھی شیطان جس کی جیت ہوتی ہے اسی کی ملکیت ہوتی ہے یا پھر خدا اور شیطان ایک ہی وجود کے دو الگ الگ نام ہیں؟ جو مختلف حرقات پہ اپنا لیبل لگا چکے ہیں؟ یہ کرو تو تم پہ ابلیس کی حکمرانی یہ کرو تو تم پہ خدا کی حکمرانی یا یہ سب صرف انسانی سوچ کا ایک کھیل ہے؟
بیٹا ان سوالات کے جوابات تو بہت آسان ہیں۔
سعد: تو جناب پھر دیجئے ان سوالات کے جوابات۔
عاقل ہنستے ہوئے کہتا ہے تو پھر آؤ باری باری تمھیں تمھارے سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔
وہ دونوں ٹرین کی کینٹین میں جاکے بھیٹھ جاتے ہیں، اور چاۓ پیتے ہوئے عاقل صاحب اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں۔
کیا ٹرین میں سفر کرنا جرم ہے؟ ہاں بھی اور نہیں بھی۔ 
ہاں اس لئے کے بغیر ٹکٹ سفر کرنا جرم ہے، اور نہیں اس لیے کے ٹکٹ کے ساتھ سفر کرنا جرم نہیں، اب بیٹا غور سے سنو، جو ہم دونوں میں مشترکہ ہے وہ ہے سفر، لیکن پھر بھی ہم اسے مشترکہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ تمھارا سفر قانونی ہے اور میرا سفر غیر قانونی۔ چلو بات کو بالکل آسان کر دیتے ہیں، ایک چھوٹی سے مثال سے کے دیکھوں خدا نے ہر چیز کو کرنے کے ایک طریقہ بنایا ہے، اس طریقے پہ وہ کام کرنے سے وہ بندے کو انعام دیتا ہے، لیکن اگر کوئی بندہ اس طریقے سے ہٹ کے کام کرتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ہوجاتا ہے، جیسے کہ مینے تمھیں مثالوں سے سمجھایا، دیکھوں جب یہ کام کرنے کے دونوں طریقے خدا نے ہی بنائے ہیں، لیکن اس میں سے ایک کو قانونی قرار دیا ہے اور دوسرے کو غیر قانونی، مجھے ایک بات بتاؤ بیٹا یہ تم ریاست پاکستان کو سمجھلو ریاست خدا، اور دشمن ریاست کو سمجھ لو ریاست شیطان، اب جب ریاست خدا میں جرائم کی شرح بڑھ جائی گی تو کیا تم یہ کہوں گہ کہ ریاست خدا کہ بندوں پر ریاست شیطان حکومت کر رہی ہے؟
سعد: ہاں بالکل! 
عاقل ہاہاہاہاہاہا بیٹا میرے خیال میں تمھیں انھیں غدار کہنا چاھیے جو ریاست خدا کے قانون کو توڑتے ہیں، اور پیسے کے لالچ میں یا مال کی حرس میں ریاست شیطان کے نظریہ پہ کام کرتے ہیں۔ ان افراد کے اس کام کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کے ریاست شیطان کی حکمرانی آچکی ہیں۔کیوں ریاست خدا کا وجود ابھی تک قائم ہے۔
اور تمھیں ایک مزے کی بات بتاؤ بیٹا خدا نے انسان کو آزادی دی ہے، لیکن راستے دو بناۓ ہیں ایک لیگل (قانونی/اچھائی) اور ایک الیگل(غیر قانونی/برائی) ہے، لیکن دیکھو دیکھو خدا کی آزادی کتی عزیم ہے جو اسنے ہمیں دی ہے کہ ہم اس میں سے بھی خود چنے یا خدا کے آئین کی پاسداری یا پھر اس سے غداری، انعام چنے یا سزا، خدا کا آئین، طریقہ اور حدود دیتا ہے، جس میں ہمارا ہی فائدہ ہے اور اس کے آئین سے غداری کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسی آہین میں درج طریقے کو چھوڑ کے دوسرے طریقے سے کسی چیز کو اپنائے، حالانکہ آہین بھی اسکا راستہ بتاتا ہے۔ اور دیکھو بیٹا بات بڑی سیدھی ہے دو راستوں کے الگ الگ نام ہیں، جن سے ان کی منزل کا اندازہ ہوتا ہے، برائی کا راستے کی منزل بری ہے اور اچھائی کے راستے کی منزل اچھی ہے، ویسے ہی ان راستوں پہ چلنا والے مسافر یا تو اچھائی کے مسافر کہلائے گیں یا برائی کے۔ 

(منظر 3)

سلیمہ اور عمار اب دونوں ایک چشمہ کہ کنارے بیٹھے ہوۓ تھے- سلیمہ، عمار سے مخاطب ہوکر کہتی ہے، یہ چشمہ میں سے پانی بہتا ہوا دیکھ رہے ہوں؟ جب تم اسے بلکل وہاں سے پیو گے جہاں سے چشمہ بہہ رہا ہے تو یہ بلکل تازہ اور شفاف ہوگا، لیکن آؤ تمھیں ایک اور جگہ لے چلتی ہوں۔
سلیمہ،عمار کو ایک نمک کے پہاڑ پہ لے جاتی ہے، اور کہتی ہیں دیکھو یہ چشمہ اب اس نمک کہ پہاڑ میں داخل ہوگا، تم اب اسکا پانی پیو۔
عمار: پانی بلکل تازہ اور میٹھا ہے۔
سلیمہ: چلو آؤ تمھیں اب کچھ اور دیکھاتی ہوں اب سلیمہ، عمار کو لیے اس جگہ کھڑی تھی, جہاں سے چشمہ نمک کے پہاڑ کو پار کر چکا تھا۔
سلیمہ: اب پانی پیو عمار۔
عمار پانی پیتا ہے اور جواب دیتا ہے، پانی اب کڑوا ہو چکا ہے۔
سلیمہ: اب غور سے سنو عمار نہ پانی کی شکل بدلی، اور نہ اس کی حالت، وہ دیکھنے میں تو بظاہر ویسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسا چشمے سے نکلتے ہوۓ تھا، لیکن اس میں تبدیلی آئی یہ بات تمھیں وب معلوم ہوگی جب تم اسے پیو گے۔
تو تمھارا آج کا سبق بڑا سادہ تھا۔ کہ تم اب زمین پہ موجود چشمہ کا پانی پی رہے ہوں، جو ہزاروں نمک کے پہاڑوں سے ہوکر آیا ہے، کیوں کہ تم شروع سے وہی پانی پی رہے ہوں تو تم اسے ہی اصلی پانی سمجھتے ہوں، لیکن اب تمھارے دل میں شکوک پیدا ہوئے ہیں کہ آخر دیکھو تو صحیح یہ پانی آتا کہاں سے ہے، اور کیا اس کا اصل وجود یہی ہے؟ یا پھر یہ ملاوٹی ہے؟ 
تو بیٹا خدا کی تلاش بھی ایسے ہی ہے، تمھارا دماغ جو کہ چشمہ ہے اور تمھاری سوچ جوکہ چشمہ کا پانی ہے، وہ اب اپنی اصلی حالت میں نہیں رہا، تمھیں اس کی اصل حالت معلوم کرنے کے لیے نمک کے پہاڑوں سے پیچھے آنا پڑے گا۔ تبھی تم سوچ کی اصلیت محسوس کر پاؤ گے۔ اور جب تم اصلیت محسوس کرو، تو تمھیں پانی کا رخ بدلنا ہے، دیکھو تم اپنا وجود بانٹوں گے ایک وہی زمین پہ رہے گا، اور دوسرا اصل کی تلاش میں نمک کے پہاڑوں سے پیچھے آۓ گا، جب تم چشمے کے پانی کو نمک کے پہاڑوں میں جانے سے روک دو گیں، اور اسے زمین پہ پہنچانے کا کوئی صاف ستھرا راستہ ڈھونڈ لونگے، اور جب وہ صاف اور اصل پانی تمھارے زمینی وجود تک پہنچے گا۔ تو دیکھنا پر تمھارا خدا کی طرف شفر شروع ہوجاۓ گا،
لیکن بیٹا یہ کرنا آسان نہیں، کیوں کہ جب تم پانی کا راستہ بدل رہے ہوگے تو تمھارے زمینی وجود تک پانی نہیں پہنچے گا، اور اگر وہ زیادہ دیر پیاسا رہا،تو وہ مر جائے گا،اور اگر وہ وجود مرا تو تم بھی مرجاؤ گے، تو بیٹا پہلے پورا صاف راستہ بنا لینا پھر ہی پانی کا رخ موڑنا، 
یاد رکھنا اس میں کام میں جلدی بھی نہیں کرنی اور دیر بھی نہیں۔
عمار: حیرت سے سلیمہ کی منہ کی طرف دیکھ رہا تھا، اچانک سلیمہ کی آواز سے وہ واپس ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔
سلیمہ: سوچ لو، ابھی بھی جانا چاؤ تو جاسکتے ہوں، لیکن اگر شروع کرو گے تو، نہ جلدی کرنی ہے اور نہ دیر۔

(منظر 4 )

اب وہ اپنے سفر کی طرف گامزن تھا، دو دن اور ایک رات کے بات وہ اپنی بتائی ہوئی منزل پہ پہنچ گیا جہاں ایک چھوٹی سی چیک پوسٹ تھی، اس نے وہ لیٹر چیک پوسٹ پہ دکھایا، اس کے بات اسے آرام کرنے کو کہا گیا، اور پھر اس کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کے اسے ٹریننگ سینٹر تک لے کے جایا گیا۔
ٹریننگ سینٹر پہنچنے کے بعد اس کی آنکھوں سے پٹی ہٹا دے گئی، اس سے پہلے کے وہ آس پاس کا جائزہ لیتا، اچانک اس کے منہ پہ ایک گھونسا کسی نے رسید کردیا، اس سے پہلے کے وہ سنبلھتا ایک اور لات اس کی منتظر تھی۔
وہ اب زمین پہ پڑا بری طرح درد سے کرا رھا تھا۔
اور اسے کسی کی ہنستی ہوئی آواز میں بس اتنا ہی سنائی دیا، ویلکم ٹو دی ویلی اف ایگلز (Welcome to the valley of Eagles) اس کے بات اس نے خود کو نیند کی گہری وادیوں میں پایا۔

(منظر 5)

خالد کی آنکھوں پہ سے جیسے ہی پٹی ہٹی تو اس نے خود کو ایک وسیع اور عالیشان حال میں ایک کرسی پہ موجود پایا، جہاں شاید اور بھی افراد موجود تھے لیکن اندھیرے کی وجہ سے وہ کسی کو دیکھ نہیں پارہا تھا، اچانک ایک آواز حال میں گونجی، آپ کو سب کو خوش آمدید، آپ اس وقت دنیا کی بہترین تنظیم کا حصہ بن نے جارہے ہیں، جو جھوٹ سے دور سچ کی پرستش کرتی ہے، جو اپنے حق کے لیے لڑتی ہے، آپ سب کو آنے والے کچھ دنوں میں بہترین تربیت کاروں سے تربیت دلوائی جائے گی، اور آپ ایک عظیم مقصد کا حصہ بنے گیں، اب آپ سب اپنے اپنے کمرے میں تشریف لے جاسکتے ہیں، جس کا نام پکارا جائے وہ اپنی نشست سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلا جائے۔
کافی دیر انتظار کرنے کے بعد اس کا نام پکارا جاتا ہے،جب وہ اپنے کمرے میں پہنچتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے، اتنا عالیشان اور پروقار کمرہ شاید آج تک اس نے صرف خیالات میں ہی دیکھا تھا۔

(جاری ہے۔)

Comments

Popular posts from this blog

Yo y Dios (Episodio 1)

Yo y Dios (Episodio 12)