میں اور خدا ( قسط نمبر 5)

(میں اور خدا ایک ایسا ناول ہے جو آپ کو حیرت کے سمندروں میں لے جاۓ گا، ان پوچھی پہلیاں سلجاۓ گا، جو ایک جھونپڑی سے لے کر محل تک کے سوچ کے مینار ہلاۓ گا۔عشقق، محبت، جنون، سکون،بغاوت سے ہوتے ہوئے ایک نئی دنیا میں لے جاۓ گا۔جو آپکو سوچنے پر نہیں بلکہ عمل کرنے پہ مجبور کرے گا، اس میں آپ تلخ باتیں ضرور سنے گے، لیکن ناول کے اختتام پر پوری بات واضح ہوجاۓ گی، تنقید آپکا حق ہے لیکن فتویٰ نہیں حتی کے میں اپنی بات پوری واضح کردو، ذیادہ سے زیادہ شیھر کریں لیکن میرا محنت پہ ڈاکہ ڈال کر نہیں بلکہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے۔)

Published from Blogger Prime Android Appمیں اور خدا
مصنف: تیمور اجمل
قسط نمبر: 5

(منظر 1)

یہ سوال آتے ہی وہ خود کی متوجہ ہوا، اس نے خود سے سوال کیا کے کیا میں سگنل دیکھ سکتا ہوں؟ کیا میں جن دیکھ سکتا ہوں؟ کیا میری نظر 1000 کلومیٹر دور کھڑی چیز دیکھ سکتی ہے؟ نہیں لیکن ایسا کیوں؟

اس کے جواب حاصل کرنے کے لیے اس نے پہلے سائنس سے انسانی آنکھ کی ساخت کو سمجھنے کی کوشش کی۔وہ ایک تحریر پڑھ رہا تھا جس میں لکھا تھا کہ:

انسانی آنکھ کی ریزولوشن 576 میگا پکسل نہیں ہے – انسانی آنکھ کی ساخت کیمرے کی ساخت سے مختلف ہوتی ہے اگرچہ روشنی سے شبیہہ بنانے کے بنیادی اصول کیمرے اور آنکھ دونوں میں استعمال ہوتے ہیں – جدید ڈیجیٹل کیمروں میں امیج سینسرز ہوتے ہیں جن میں لاکھوں پکسل ہوتے ہیں اور تمام پکسل exactly ایک جیسے ہوتے ہیں – اس کے برعکس آنکھ میں پکسل نہیں ہوتے بلکہ روشنی ڈیٹیکٹ کرنے کے خلیے ہوتے ہیں جو مختلف قسموں کے ہوتے ہیں - کل ملا کر دیکھا جائے تو انسانی آنکھ میں تقریباً 12 کروڑ خلیے ہوتے ہیں جو روشنی کو ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں - پردہِ بصارت کے عین درمیان میں (جسے Fovea کہا جاتا ہے) تو ان خلیوں کی تعداد اور کثافت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن اسے کے مرکز سے ذرا دور جائیں تو ان خلیوں کی تعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے – ان میں سے صرف ساٹھ لاکھ کے قریب خلیے (جنہیں cones کہا جاتا ہے) رنگوں کو ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک لاکھ سے بھی کم خلیے نیلے رنگ کے فوٹونز کو ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں – گویا 11 کروڑ سے زیادہ خلیے (جنہیں rods کہا جاتا ہے) صرف سفید روشنی کو ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں لیکن رنگ نہیں دیکھ سکتے – دن کی روشنی میں محض کونز ہی کام کر پاتے ہیں – راڈز اتنی زیادہ روشنی میں saturate ہو جاتے ہیں اور کام نہیں کرتے – اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دن کے وقت آنکھ کی ریزولوشن صرف ساٹھ لاکھ یعنی 6 میگا پکسل ہوتی ہے لیکن دن کے وقت آنکھ مختلف رنگ بخوبی دیکھ سکتی ہے – کم روشنی میں آنکھ کی ریزولوشن تو بڑھ جاتی ہے لیکن پھر یہ رنگ نہیں دیکھ پاتی – اسی لیے جھٹ پٹے کے وقت جب روشنی کم ہوتی ہے ہم رنگ نہیں دیکھ پاتے۔

لیکن آنکھ کے مسائل یہیں پر ختم نہیں ہو جاتے - آنکھ کے عدسے اور پردہِ بصارت کے درمیان خون کی رگیں اور وہ nerves ہیں جو پردہِ بصارت پر بننے والی شبیہہ کو بجلی کی لہروں میں منتقل کر کے دماغ تک پہنچاتی ہیں – انہیں آنکھ کی وائرنگ سمجھ لیجیے – گویا آپ کی آنکھوں کے وائرنگ آنکھ کے عدسے اور پردہِ بصارت کے درمیان حائل ہے اورپردہِ بصارت پر بہتر شبیہہ بنانے میں مانع ہے – اس کے برعکس جدید کیمروں کے سینسرز میں یہ وائرنگ سینسر کے پیچھے ہوتی ہے تاکہ عدسے کی شعاعیں سینسر پر فوکس ہو سکیں – کچھ جانوروں کی آنکھوں میں یہ وائرنگ سینسرز کے پیچھے ہوتی ہے جن میں آکٹوپس اور اس کے قریبی رشتہ دار شامل ہیں – اسی وجہ سے آکٹوپس کی نظر بہت تیز ہوتی ہے

(منظر 2)

 وہ واپس ٹرین میں اسے اسٹیٹس سے سوار ہوگیا، اور اتفاق سے اس کی ملاقات پھر سے عاقل صاحب سے ہوگئی۔ اس نے اپنا سارا ماجرا عاقل صاحب کو سنایا عاقل صاحب نے ہنستے ہوئے کہا یہ تو میری خوش نصیبی ہے کہ میں اس بہترین سفر میں تمھارا رہبر بنوں گا۔ چلا آؤ کینٹین میں چلیں وہاں جاکے تھوڑی چاۓ پیتے ہیں اور اپنے سفر کا آغاز بھی کرتے ہیں۔ 
  عاقل: دیکھو بیٹھا تمھیں سب سے پہلے مذاھب کو سمجھنا ہوگا۔ بیٹا، مذاھب کو اس سے طرح سے درجہ بند کیا گیا ہے کہ سامی اور غیر سامی اور پھر غیر سامی مذاھب کو آریائی اور غیر آریائی مذاھب میں۔
   سامی مذاھب وہ مذاھب ہیں جو سامی لوگوں میں نازل ہوئے ۔بائبل کے مطابق سام حضرت نوح کے بیٹا کا نام ہے، جس کی نسل کو سامی کہا جاتا ہے لہذا سامی مذاہب سے مراد یہودیوں، عربوں، آشوریوں اور فونیشیوں(بحیرہ روم کے جنوب مشرقی ساحل کے قدیم باشندے جنہوں نے رسم الخط ایجاد کیا) وغیرہ میں نازل ہونے والے مذاہب ہیں۔
    اب میں تمھیں غیر سامی مذاہب کے بارے میں بتاتا ہوں۔ غیر سامی مذاہب کو مزید دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
 1. آریائی
  2. غیر آریائی

 آریائی مذاہب سے مراد کہ وہ مذہب جو ان میں ظہور پذیر ہوئے۔ آریا ان طاقتور قبیلوں کو کہا جاتا ہے جو ہند یورپی زبانیں بولتے تھے اور 2000 تا 1500 قبل مسیح (BC) میں ایران اور شمالی ہندوستان سے ہوتے ہوئے مختلف علاقوں میں پھیل گئے تھے۔
 آریائی مذھب کو مزید ویدک اور غیر ویدک کی ان اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
 1. ویدک مذھب کو ہندومت یا برہمنیت کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
 2. غیر ویدک میں سکھ مذھب، بدھ مت اور جین مت وغیرہ شامل ہیں، تقریباً تمام آریائی مذاہب غیر پیغمبرانہ مذاہب ہیں، آتش پرستی (زرتشتی مذہب) ایک آریائی غیر ویدک مذھب ہے جو ہندو مت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور پیغمبرانہ مذہب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

  اب میں تمھیں غیر آریائی مذاھب کے بارے میں بتاتا ہوں ، ان کا آغاز مختلف علاقوں میں ہوا۔ کنفیوشس مت اور تاؤ مت چین میں جبکہ شنٹو مت جاپان میں ظہور پذیر ہوا۔ بہت سے غیر آریائی مذاہب میں خدا کا تصور موجود نہیں ہے۔
  یہ تو ہوگئی مذاہب کی تعریف اب میں تمھیں ہندومت میں خدا کا تصور کیا ہے وہ سمجھاتا ہوں۔

(منظر 3)

سلیمہ: عمار وہ دیکھو ہرن، یہی ہمارا آج کا ناشتہ ہوگا۔ جاؤ عمار ذرا شکار تو کرکے لاؤ۔
عمار حیرت سے سلیمہ کے منہ کی طرف دیکھنے لگ گیا کہ بھلا میں خالی ہاتھوں سے اس ہرن کا شکار کیسے کرونگا۔ 
عمار : میں کیسے اس کا شکار کرو؟
 
سلیمہ: تو آؤ تمھیں شکار سکھاتی ہوں، وہ سامنے دیکھو دو ہرن ہیں ایک بلکل صحیح حالت میں ہے اور دوسرا تھوڑا زخمی ہے۔ تم بتاؤ ان میں سے آسان شکار کون سا ہے؟ 

عمار: جو زخمی ہے وہ آسان ہے۔

سلیمہ : تو بیٹا اس اصول کو سمجھو نہ زخمی آسان ہے نہ صحیح حالت والا آسان ہے، زخمی محتاط ہوتا ہے اور صحیح حالت والا ہوشیار اور توانائی سے بھرپور۔ لیکن ان کی کمزوریوں بھی ہیں، جو محبت اور غرور ہیں۔ 

عمار: وہ کیسے؟
 جب تم کسی زخمی کو محبت دکھاؤ گے تو وہ تمھیں مرہم سمجھے گا اور جب وہ تمھیں مرہم سمجھ لے تو تم اس کا شکار بڑی آسانی سے کرسکتے ہوں۔ اور رہی بات دوسرے کی تو وہ اپنے جسمانی زور، طاقت اور عقل کے غرور میں لڑنا چاھے گا۔ تم لڑنا مت بس جھک کر اطاعت قبول کر لینا پھر وہ تمھیں کمزور سمجھے گا۔ تم موقع کا فائیدہ اٹھا کر اس کی جڑو میں گھنسنا اور اسے کھوکھلا کر دینا وہ بہت بری طرح اپنے ہی غرور کے جال میں پھنس جاۓ گا پھر تم اس کا آسانی سے شکار کرسکتے ہو اور یاد رکھنا یہ دو چیزیں ایک انسان میں بروقت نہیں ہونگی، زخمی ہوگا تو غرور مٹ جائے گا اور غرور کبھی زخم کی بنیاد پہ نہیں کھڑا ہوتا۔ 

اب وہ ہرن کا شکار کرکے اور اپنا ناشتہ بیٹھے ہوئے تھے ۔

سلیمہ: جانتے ہوں وہ دونوں ہرن میرے ہی کردار تھے ۔

عمار حیرت سے سلیمہ کا منہ تکنے لگ گیا۔ 

(منظر 4)

وہ اب یہ یہی سوچ رہا تھا کہ چاروں طرف موت ہی ہے۔ اے زندگی تیرا اور میرا سفر بس یہی تک تھا۔
لیکن ایک سوچ نے اس میں ایک امید پیدا کرے کہ اگر انھوں نے مجھے مارنا ہی ہوتا تو پہلے مار دیا ہوتا، یہاں تک مجھے کیوں زندہ رکھا ضرور انھوں نے کوئی نہ کوئی راستہ رکھا ہوگا، یہ صرف میرا امتحان لے رہے ہیں۔ ویسے ہی جیسے خدا انسان کا لیتا ہے اسے مشکلوں میں گھرا کر ، ہر طرف اندھیرا پھیلا کر وہ یہ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ روشنی کی امید کرتا ہے یا نہیں مجھ پہ بھروسہ کرتا ہے یا نہیں ۔
اس نے مزید سوچا جب مرنا ہی ہے تو کوشش کرکے کیوں نہ مریں، آخری دم تک کیوں نہ لڑے؟ آخر کب تک اس بہانے کا سہارا لیں کہ اگر میں یہ کرتا تو یہ ہوجاتا اگر میں وہ کرتا تو یہ ہوجاتا۔ بس اب مزید اگر کی گنجائش نہیں ۔ " اگر " فیصلوں کو کمزور کر دیتا ہے، انسان کو الجھا دیتا ہے۔
اچانک اسپیکر سے دوبارہ آواز بلند ہوئی " نوجوان آگر چاؤں تو جا سکتے ہوں تمھیں آزاد کردیا جائے گا اگر رکو گے تو ایک عظیم اور مقدس مقصد تمھارا مقدر ہوگا، لیکن رکنے کے لیے تمھیں یہ امتحان پار کرنا ہوگا".

مقدس مقصد کا نام سنتے ہی یاسر کو اپنے سوالات یاد آگئے اس نے ٹھان لی کہ اس مقدس مقصد کی جانچ پڑتال کرکے ہی دم لے گا۔

(منظر 5)

خالد کے سوال پوچھنے پر ہر شخص خالد کی طرف متوجہ ہوگیا۔ 
خالد میرا نام ساجد ہے، اور اب میں تمھیں اپنے مقصد کے بارے میں مختصر بتاتا ہوں، ہمارا مقصد ہے انسان کی آزادی۔ رسموں رواج سے مذہب سے وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ وبھی ممکن ہے جب ہم پورے معاشرے کو مذہب اور رسوم و رواج سے آزاد کردیں، تاکہ ہم ایک جدید اور بہترین زندگی جی سکیں، ہم پر کوئی پابندی نہ ہوں ہم اپنی مرضی کرسکے تو آؤ سب سے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کو ہے کیا؟

مذہب، شریعت اور طریقت کے الفاظ کا معنی ہے "راستہ"۔ سنسکرت میں لفظ دھرم کا مادہ ہے دھر بہ معنی "رکھنا"۔ اصطلاح میں دھرم سے مراد راستی، عدل یا اخلاق حسنہ ہے۔ ۔ یہ عربی لفظ “ذ-ھ-ب” سے مشتق ہے، جس کی معنی جانا (چلنا) یا گزرنا ہے۔

میرے اپنے ذاتی نظریے کہ مطابق "مذہب کسی انسانی سوچ کا وہ مظبوط جال ہے کہ جس میں پھنسنے کے بعد یا تو انسانی زندگی جہنم کا شکار ہوتی یا جنت کا شکار بن تی ہے اور اس دنیا کا ہر انسان یا تو جہنمی ہے یا پھر جنتی" ( تیمور اجمل)
 
اہل نظر نے مذہب کی تعریف اپنے اپنے نکتہ نظر سے کی ہے۔ چند اقوال درج ذیل ہیں

مذہب اس عقیدے پر مبنی ہے کہ پمارے اور کائنات کے مابین توافق پایا جاتا ہے۔ (میکٹے گارٹ)

مذہب اس بات پر عقیدہ رکھنا ہے کہ کائنات بامعنی ہے (ویلسس)

مذہب چند پابندیوں اور بندشوں کے مجموعے کا نام ہے (سالومن ریناخ)

مذہب اس کوشش کا نام ہے جو آدمی اپنی تنہائی کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے کیلیے کرتا ہے (وائٹ ہیڈ)

مذہب ان مافوق الطبع ہستیوں یا قوتوں کی تالیف قلب کا نام ہے جو اہل مذہب کے خیال میں انسانی زندگی پر متصرف ہیں (فریزر)

مذہب کامل احتیاج اور انحصار کا نام ہے (شلائر ماخر)

مذہب قدیم زمانے کے انسان کی دہشت کی تخلیق ہے (لکریشس) 

مذہب وہ مابعدالطبیعات ہے جو تجربے میں آئے (سپنگلر)

مذہب انسانی ذہن کی آرزووں اور تمناوں کی ایسی بیرونی قوتوں کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش ہے جو فی الواقع اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتیں (ہارٹ مان)

مذہب نفسیاتی عدم توازن کے مماثل ہے (فرائڈ)

مذہب ہمارا احساس ہے ان برتر قوتوں کے بارے میں جو انسانی مقدر پر حکمران ہیں (مارلے)

مذہب اس بات کی کوشش ہے کہ قدیم رسوم کی مفاہمت عقلیاتی اور سائنٹیفک فکر سے کی جائے اور بےمعنی عمل کیلیے محکم عقلی اساس مہیا کی جائے (نامعلوم) 

مذہب عوام کیلیے افیون ہے (کارل مارکس)

غیرمرئی طاقتوں کا خوف انفرادی صورت میں توہم ہے اور اجتماعی صورت میں مذہب ہے (ہابس)

ان اقوال پر غور کیا جائے تو مذہب کے پانچ عناصر ترکیبی سامنے آتے ہیں۔ عقیدہ جذبہ رسوم عبادت اخلاق یا دستور عمل علم کلام۔

(جاری ہے).....

Comments

Popular posts from this blog

Yo y Dios (Episodio 1)

Yo y Dios (Episodio 12)