میں اور اسلام (قسط نمبر 1)

Published from Blogger Prime Android App

میں اور اسلام 
مصنف: تیمور اجمل
قسط نمبر:1

(اس ناول کے پہلا حصہ لازمی پڑھیں جس کا نام "میں اور خدا" ہے۔)

کچھ کہانیاں منظر عام پہ ہوتی ہیں اور کچھ منظر سے ہمیشہ غاہب۔ اس دنیا کے دو رخ ہیں ایک جو ہم دیکھ سکتے ہیں اور ایک جو بلکل پوشیدہ ہے، جس کا کچھ عکس ہمیں افسانوں میں بھی مل جاتا ہے۔ جو پوشیدہ ہے وہ راز ہے اور راز ہمیشہ کہانی ہی ہوتی ہے، تفصیلات ہوتی ہے۔ ورنہ ہم سب جانتے ہیں، ظلم ہے، انصاف ہے، قسمت ہے، ظلم ہے، ظالم ہے، مظلوم ہے، زندگی ہے ، موت ہے، ہم ہر چیز کا عنوان تو جانتے ہیں مگر تفصیلات راز رہ جاتی ہیں۔ اور اس راز پہ سے جب پردے ہٹتے ہیں تو اسے افسانہ سمجھ کے اس پہ کچھ خاص نظر کرم نہیں ہوتی۔ کیونکہ اگر اس سچ کو قبول کرلیا جائے تو وہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر ہم ناجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا ہم سے نہیں ہم اس دنیا سے ہیں۔ اس دنیا میں دو ہی طاقتیں ہیں ایک اچھی اور دوسری بُری، اور ہر شخص یا تو ان میں سے ایک کو اپنا کر دوسروں پر راج کرتا ہے، یا اس کے زیرِ اثر رہ کر اس کی بقا کی جنگ لڑتا ہے۔ لیکن زیر اثر شخص کی وفاداری راج کرنے والے شخص کی مظبوطی پہ انحصار کرتی ہے۔ اگر راج کرنے والے شخص کی پکڑ اچھی طاقت پر کمزور ہوئی، تو اچھائی کے زیر اثر شخص پر بُرائی کے غالب آجانے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ اور رہی بات بُرائی کی تو اس میں بہت طاقت ہے اس میں بہت کشش ہے، لیکن جب تک اچھائی موجود ہے یہ مکمل غالب نہیں آسکتی۔  

چلیں اب اسلام کی طرف چلتے ہیں، میں آپ کو یہاں اسلام سکھانے نہیں آیا، اور اگر آپ اس ناول میں اسلام کو سیکھنے آئے ہیں تو یہ نہایت افسوس کی بات ہے، یہ آپ کی کمزوری ہے علمی بھی اور عقلی بھی۔ کہ آپ قرآن پڑھے اور سمجھے بغیر دین کو تلاش کرنے نکل جاتے ہیں۔ اور پھر کچھ ادیب یا تو آپ کو شدت پسند یا پھر دہشت گرد یا پھر فرقہ پرست تو بنا ہی دیتے ہیں، آپ کو اختیار مل جاتا ہے کفر کے فتویٰ کا یہ کام مولوی احسن طریقے سے کرتے ہیں۔ دین اسلام کا علم آپ کو اس عالم سے ملے گا جو قرآن کی آیات اور حدیث نبوی سے آپ کی رہنمائی کرے۔ لیکن اس کے لیے کم از کم آپ کو قرآن سمجھنا ہوگا۔ میں کوئی عالم دین نہیں، البتہ آپ اگر چاھیے تو مجھے مولوی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ میں اپنی جذباتی باتوں سے آپ کی قوت جہالت مزید بھڑکا سکتا ہوں۔ میں شریعت کو تھوڑ مڑوڑ کر عقل شامل کرکے آپ کو مطمئین کرسکتا ہوں۔ میں ان باتوں کو جو سننے میں نہایت دلچسپ اور اچھی لگتی ہوں، حدیث کا نام دے کر اپنا منجن بھیج سکتا ہوں۔ محبت کا لبادہ اوڑھ کر صوفی بن کر بھی دھوکہ دے سکتا ہوں۔ لیکن افسوس نا تو میری داڑھی ہے نا ہی میں نے دنیا فنا کرکے محبت کا لبادہ اوڑھا ہے اور اس دنیا سے میں کنارا کش بھی نہیں ہوا کہ جس میں دین اسلام کا نفاذ میری زمیداری ہے۔ اس لئے میں نا تو مولوی کے عہدے پر فائز ہوسکتا ہو اور نا ہی صوفی کے۔ آپ چاھیں مجھے جو بھی کہیں لیکن میں خود کو بس ایک مسافر سمجھتا ہوں جو آپ سے اپنی راہ کی داستان بیان کرے گا اور وہ داستانیں بھی بیان کرے گا کہ جو میں نے اس سفر میں دوسروں ساتھیوں سے سنی۔

میں چند آخری باتیں کرکے آپ کو کہانی کی طرف لے جاؤ گا۔ یہ آپ کو میرے Final Arguments لگے گیں۔ لیکن نہی، اس کہانی کا ہر لفظ اور جملہ اتنا طاقتور ہے کہ اسے Final Argument سمجھنے میں کوئی حماقت نہیں۔ 

میں یہاں ایک لکھاری کی حیثیت سے ہوں، تو بات پہلے لکھائی پہ کرتا ہوں۔ ادب، اسلام مخالف کا وہ طاقتور ہتھیار ہے۔ جس سے اس نے بغیر خون بہائے، سلطنتوں کو تباہ کردیا، سلطنت عثمانیہ کے سلطان، سلطان عبد الحمید کا تختہ پلٹنے میں اس ادب کا بہت بڑا اثر ہے۔ اور وہ لوگ جو مجرم تھے امن کے پیغمبر کہلاۓ۔ اور مسلمان اپنا گھر بچانے جب بھی نکلا وہ دہشتگرد کہلایا۔ کیونکہ اس نے سیاست سے کنارہ کیا۔ اپنے نظریات سے کنارہ کیا۔ خدا اور اسکے رسول سے کنارہ کیا۔ اس کے جذبات ابھرے بھی تو دشمن کی تحریکوں سے دشمن کی تحریروں سے۔ پھر ذلت تو مقدر ٹھہرنی ہی تھی۔ کہتے ہیں مسلمان بھولا ہوتا ہے۔ ہاں ہوتا ہے لیکن وہ قہر بھی ہوتا ہے وہ سیاست بھی جانتا ہے۔ لیکن ہم قہر بن کر خود پہ ہی نازل ہوئے، ہم نے سیاست اپنوں سے ہی کی۔ 

ہم نے گالیاں حکمرانوں کو ہی دیں، بلکے ہم خود گالیوں کے حقدار تھے۔ ہماری خواتین، اگر بیوی ہو تو ماں سے اپنے مرد کو الگ کرنے میں ماہر، اگر ماں ہو تو بہو کو اپنے بیٹے کے سامنے مجرم بنانے میں ماہر۔ اگر۔لڑکا ہو تو لڑکیوں کو پٹانے میں ماہر۔ اگر لڑکی ہو تو لڑکوں کو گمانے میں ماہر۔ اور لکھاری ان چالوں پہ ان سیاستوں پہ اپنا قلم چلا کے ان کو نئے نئے طریقوں سے واقف کروانے میں ماہر۔ سیاست اور عقلمندی تو ہماری رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے لیکن بات استعمال کی ہے جس کو جس سے محبت وہ اُسی کے نغمے گائے۔ کرنے کو انسان سب کچھ کرسکتا ہے، لیکن آج کا مسلمان سارا الزام خدا پہ ڈالتا ہے۔ اور اپنے مفاد کی خاطر عقل انسانی کو ڈھنگ کردینے والا یہی مسلمان اسلام کے معاملے میں بے بس نظر آتا ہے، بلکہ نہیں میں یہ کہوں تو صحیح رہے گا، خود کو بے بس دکھلاتا ہے۔ 
اقبال نے "جواب شکوہ" میں کیا خوب کہا یے۔ 

" تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
    ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو"
    -----------------------------------------

وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں مسلمانوں کے ایک فرقے کی مسجد کا نیا امام بن کر آیا تھا، کسی دراسات سے فارغ التحصیل (Completed Islamic Education from Islamic Authentic School or university) نہایت سلجھا ہوا، نہ اس کی خطابت میں زہر نہ اس کی آنکھوں میں استعمال انگیزی۔ 

وہی دوسری طرف اسی گاؤں میں مسلمانوں کے ایک اور فرقے کی امام بارگاہ میں بلکل ایسی ہی صلاحیت کے حامل منصب سنبھال چکے تھے۔ 

دونوں کی خطابت بہت پسند کی جاری تھے، کیونکہ وہ مسلمانوں کے ان دونوں فرقوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت پیدا کررۓ تھے۔ 

لیکن پھر ایک دن یہی ان دونوں فرقوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے۔ اور خون ریزی کی وہ جنگ شروع ہوتے ہے، جو کافر کا یہ فخر سے کہنے پہ مجبور کرتے ہے۔ کہ ہم مسلمان نہیں۔ 

اس فساد سے کھچھ دن پہلے مسجد اور امام مسجد کا امام ایک خفیہ جگہ پہ ملاقات کرتے ہیں۔ 

(جاری ہے)

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Yo y Dios (Episodio 1)

Yo y Dios (Episodio 12)