دعویٰ محبت



دعویٰ محبت
تحریر : تیمور اجمل

(یہ تحریر خود کلامی کی منظر کشی ہے، کہ جس میں دوست اور صاحب سے مراد ایک ہی وجود میں موجود بے شمار کردار ہیں، جن میں سے کچھ روحانی اور کچھ شیطانی ہیں۔ اور وہ اپنی فطرت کے مطابق اپنی منزل سے محبت کرتے ہیں۔ جیسے شاعر،شاعری سے، لکھاری، لکھائی سے، گمراہ، گمراہی سے، مشرک، شرک سے، عاقل، عقل سے  سچ، سچائی سے، محب، محبت سے اور تخلیق، خالق یعنی اللہ سے، وغیرہ وغیرہ، یہ سارے کردار ہر وقت نظریاتی جنگ میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ جب اختلاف روحانی حلقوں میں ہوں تو بات چیت سے اختلاف ختم کیے جاتے ہے، ایسا ہی شیطانی حلقوں میں بھی ہوتا ہے۔ لیکن جب روحانی اور شیطانی حلقے آمنے سامنے ہوں، تو جنگ ذبردست ہوتی ہے۔)

"جب سے شاعری کا آغاز ہوا، وب ہی سے دوستوں کی طرف سے ان کے محبوب کے لیے شاعری کی فرمائشیں موصول ہونا شروع ہوگئی، اور ہر بار میں نے اُنہیں ان دو حقیقتوں کو بیان کرکے اپنی جان چھڑائی پہلی یہ کہ یہ شاعری الہامی ہے میرا اس پر کوئی اختیار نہیں، دوسری یہ کہ محبوب آپ کا ہے محبت آپ کرتے ہیں میں نہیں، اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے محبوب سے  تصوراتی محبت کرلیتا ہوں، اور پھر شاید یہ محبت الہام میں اگر شامل ہوگئی تو میں غزل کیا پوری کتاب لکھ دوں۔ لیکن میری شرط ہے کہ میں جس کے لیے شاعری کروں گا اسے خود سناؤ گا۔ اور اس تصوراتی محبت کے دوران آپ اپنے محبوب سے قطع تعلقی کریں گیں، اور یہ سب آپ کے محبوب کی رضہ مندی سے ہوگا۔ تاکہ میں آپ کے محبوب کو پانے کی امید میں عقل کو دھوکہ دے کر تصورات میں خود کو اتنا گہرائی میں اتار دو، کہ جھوٹ اور سچ کا فرق مٹا کر، جذبات کو خود پر غالب کرکے، محبت کا ایک وجود قائم کرسکو جو میرے الہام کو عقلی سچ سے دور میری اس دھوکہ کی دنیا میں لاکر میرے مقصد مطلوب کے مطابق لفظوں کی ہیر پھیر کرنے میں میری معاون ہو۔ لیکن ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور بے ایمانی کی بھی قیمت ہے، اگر الہام بند ہوگیا، جو کہ لازماً کچھ وقت کے بعد ہونا ہی ہے، تو آپکا محبوب بھی میری محبت کی قید میں بند ہوجاۓ گا۔ کیونکہ یہ دھوکہ کی دنیا جوکہ میں بناؤ گا، اس پر کچھ وقت تک میرا اختیار ہوگا۔ اس کے بعد میں اسے ہی سچ ماننے لگ جاؤں گا۔ بہرحال اس دوسری حقیقت کے بیان کے بعد دوستوں نے ہمیشہ کنارہ کشی ہی کی ہے، لیکن ایک دوست نے اس شرط کو بھی قبول کیا اور بس اتنا کہا کہ مجھے اپنی محبت پر یقین ہے آخر میں انجام تمھارا ہی برا ہوگا۔ تو میں نے اس دوست سے صرف ایک سوال کیا کے کیا تم چاہتے ہو کہ میں صرف تمھارے محبوب کی شاعری کی فرمائش پر خود کو اس عذاب سے دوچار کرو؟  تو میرے دوست نے بڑا عاجزانہ جواب دیا کہ محبت تو اندھی ہوتی ہے جب تم کروگے تو پتہ لگے گا۔ عقل مفلوج ہوجاتی ہے بس محبوب ہی محبوب دِکھتا ہے۔  بہرحال میں اس جواب پہ خوش تھا اور اپنے دوست کی منافقت سے حیران بھی۔ کیونکہ میں نے فوراً دوسرا سوال پوچھا تھا جو کہ کچھ یو تھا کہ کیا تمھیں اللہ سے محبت ہے؟ جس پر صاحب نے فوراً جواب دیا: "ہر چیز سے زیادہ". خوش اس لیے کہ یہ پہلا بندہ تھا جس نے میری شاعری کو دلیل بناکے مجھ پہ زن کی محبت کا فتویٰ نہیں لگایا تھا اور حیران اس لیے کے اس کا دعویٰ مکمل جھوٹ پر مبنی تھا۔ خیر بات اِدھر اُدھر کردی کیونکہ اس وقت عاشق صاحب جذبات کے عروج پہ تھے اور میری ہلکی سے بحث یا محبت کے دعویٰ کی تعریف ہماری پرانی دوستی کو ایک جھٹکے سے ختم کرسکتی تھی۔ پھر میں نے مناسب وقت اور حالات کا انتظار شروع کردیا کہ موقعہ پر عاشق صاحب پہ یہ سچائی کھولو کہ آپکا دعویٰ محبت جھوٹ پر مبنی ہے۔ 


اور پھر جلد موقعہ نہ ملنے پہ خود موقعہ اور حالات بنانے کی کوشش کی۔ صاحب کو بلایا اور بات شروع کردی، کہ یار کچھ محبت کہ بارے میں بتاؤ آخر کیا بلا ہے یہ؟ ،صاحب نے ماشاءاللہ پی ایچ ڈی کر رکھی تھی اس سبجیکٹ پر، لیکن میں نے اپنے مقصد کہ مطابق جو پواہنٹ پکڑنے تھے وہ پکڑلیے، قصہ مختصر وہ پواہنٹس آپ صاحب کی کہانی سے ہی پڑھیے: 

" محبت میں عاشق محبوب کا تابعدار ہوتا ہے، اور اس کا ہر حکم ماننا پڑتا ہے، اپنی ذات مارنی پڑھتی ہے، محبوب کی ہر فرمائش پوری کرنی پڑتی ہے، یہ دیکھ روز اس کے پرانے میسیجز پڑھتا ہوں، دل کو سکون ملتا ہے، جب تک اس سے بات نا کرو دل بے چین ہو جاتا ہے، نہ نیند آتی ہے نہ قرار، ہر وقت اسی کی فکر رہتی ہے اور سب سے زیادہ ڈر اس کے ناراض ہونے سے لگتا ہے، جیسے شاہجہان نے اس محبت کے لیے تاج محل بنایا کاش میرے پاس پیسے ہوتے تو اس کی ٹکر میں ایک اور تاج محل بناتا اور تیری بھابھی کے سامنے پیش کردیتا، بس یار تجھے کیا بتاؤ ہر وقت بس اسی کا خیال رہتا ہے فکر رہتی ہے ۔۔۔"

صاحب کا طویل ترین محبت پہ لیکچر میں نے خاموشی سے سنا، اور اب میں مسکرا کر یہ بولا کہ تم واقعی میں سچے محبت کرنے والے ہو، تمھاری محبت زن سے سچی ہے میں اس کا گواہ ہوں لیکن میں اس بات کا بھی گواہ ہوں کہ تمھارا اللہ سے محبت کا دعویٰ بلکل جھوٹا ہے۔ صاحب ایک دم حیرانی سے دیکھنے لگے اور کہہ دیا کہ "وہ میرا اور اللہ کا معاملہ ہے تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ میرا دعویٰ محبت جھوٹا ہے؟" 

میں نے کہا میں تو تمھاری "دعویٰ محبت" کی تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہہ رہا ہوں۔ 

صاحب غصہ سے کہنے لگے، " تم میں یہ فتویٰ والا شوق کب سے آگیا، تم پڑھے لکھنے ہونے کہ باوجود جہالت والی باتیں کر رہے ہو". 

میں نے صاحب سے عرض کیا جب میں نے آپکی چپ چاپ سنی ہے تو ارض ہے کہ مجھے بھی سنا جائے، قافی بحث کے بعد صاحب مجھے سننے پر تیار ہوگئے۔ 

میں نے صاحب سے پوچھا کیا قرآن پڑھا ہے؟ ،صاحب نے کہا ہاں پڑھا ہے۔ میں نے پوچھا سمجھا ہے، کہا نہیں۔ میں نے کہا، کیا محبوب سے بات کرنے کے لیے تڑپے ہو؟ صاحب نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا نماز پڑھتے ہو۔ صاحب کہنے لگے نہیں۔ میں نے پھر پوچھا کیا محبوب کو سننے کی خواہش ہے؟، صاحب کہنے لگے ہاں، میں نے پوچھا قرآن ترجمے سے سنتے ہوں، صاحب کہنے لگے نہیں۔ پھر میں نے کہا ،تمھیں محبوب کے احکام کا پتا نہیں ہے نہ تم اس سے بات کرتے ہو نہ اس کی بات کو سنتے ہو۔ نہ تمھیں اس کی ناراضگی کی خبر ہے نہ رضامندی کا پتہ ہے اور پھر ان سب کے باوجود تمھیں نیند بھی آجاتی ہے تمھارا دل میں تڑپ بھی نہیں، نا ہی تمھیں اللہ کے لیے کچھ بنانے کی فکر اور خواہش، ہر پل تو چھوڑو تمھیں تو کسی پل کی فکر ہی نہیں جو اندھیروں میں گزررہے ہیں۔ تو میرے بھائی کون سی محبت کا دعویٰ کر رہے ہو تم؟  تم نے زن کے لیے پیمانے کچھ اور رکھے ہیں اور اللہ کے لیے کچھ اور، افسوس تو یہ کہ زن کی محبت کو اللہ کی محبت سے اوپر کردیا۔ اب بتاؤ یہ خود موازنہ کرو، تمھارا اللہ سے محبت کا دعویٰ سچا ہے یا جھوٹا؟ "

ضروری نہیں صرف زن کی محبت سے پیمائش کی جاۓ، اس دنیا میں موجود ہر چیز جس سے آپ محبت کرتے ہیں اس دنیاوی چیز اور اللہ کی محبت جس کا دعویٰ آپ کرتے ہیں ذرا ترازو میں رکھ کر تولیے کہ کہیں آپ کی محبت کا دعویٰ بھی جھوٹا تو نہیں؟ 

اور ہاں یہ بعد ذہن نشین کرلیں، کہ اگر محبوب کۓ چپ ، تو چپ رہنا ہے اگر کہے کہ بولو تو بولنا ہے۔ یہ تابعداری کہلاتی ہے جو محبت کی اول شرط ہے۔ 

یہ نہیں کہ محبوب بولے چپ، اور آپ اپنی مستی میں بولنا شروع ہوجاۓ، یہ محبت نہیں کہلاتی۔ 

محبوب فرمائے: نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اللہ اور اس کے رسول کی رسی کو مضبوطی سے تھامو، تفرقوں میں نہ پڑھو، لوگوں کے حقوق دو، عدل و انصاف کرو، ظالموں سے جہاد کرو، حق بات کرو، دین میں کوئی چیز ایجاد مت کرو، شرک سے بچوں اور بھی دیگر احکامات کہ جن سے ناواقفیت یا جہالت کے اندھیروں میں ہونے کے سبب ان کے اصل حکم سے انکار اور اپنی مرضی سے احکامات کو ماننا  اور یا تو اپنی محبت کی مستی میں مست مگن ہوکے نا جانے کن کن چیزوں کو محبوب کی طرف منسوب کرکے، محبت کے جھوٹے دعوہ پہ مطمئن ہوکے بیٹھ جانا۔ کیا یہ محبت ہے؟؟؟؟


یا پھر جہالت کی ضد توڑ کر، محبوب کے احکام کو سمجھنا، عمل کی کوشش کرنا، محبوب سے بات کرنا،محبوب کو سننا، محبوب کے لیے تڑپ رکھنا، محبوب کی فرمانبرداری کرنا۔ یا کم از کم یہ سب کچھ آہستہ آہستہ کرنے کی کوشش کرنا۔ 

ابھی بھی وقت ہے رمضان ہے، ابھی صرف دشمن نفس ہے پھر شیطان آزاد ہوجاۓ گا۔ پھر بہت مشکل ہوگی۔ 

کوشش کرکے قرآن ترجمے سے پڑھ لیں بلکے کوشش کریں کہ تفسیر سے پڑھیں۔ بھلے تھوڑا پڑھے لیکن ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں۔ اعتکاف میں بیٹھ جائے تاکہ مکمل یکسوئی حاصل ہو۔ دس،دس، قرآن ختم کرنے سے بہتر ہے ایک کو ہی ترجمے کے ساتھ آہستہ آہستہ پڑھا جائے۔ تفسیر وہی چُنے جو فلسفے اور دوسری منطقوں سے محفوظ ہو۔ جس کی تفسیر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں کی گئی ہوں۔ 

میری نظر میں سب سے بہترین " تفسیر ابن کثیر" یا پھر "الحسن البیان" ہیں کیونکہ یہ تفاسیر میرے زیر مطالعہ رہی ہیں۔ یہ آپکو پلے اسٹور پر مل جائیں گی۔

باقی یہ پلے اسٹور پر ایک ایپ ہے، جس کا کی لنک نیچے دے رہا ہوں۔ جس میں تیس کے برابر تفاسیر موجود ہیں۔ وہاں سے بھی آپ مختلف تفاسیر پڑھ سکتے ہیں۔ 

لنک یہ ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Yo y Dios (Episodio 1)

Yo y Dios (Episodio 12)